انتہاپسندی کے خاتمے میں نوجوانوں کا کردار


کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار وہاں کے لوگوں کی افرادی قوت پہ ہوتا ہے۔ افرادی قوت سے مراد کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی وہاں کی افرادی قوت ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک جب بھی ترقی کی منزل طے کرتا ہے تو اس کے پیچھے جو وجہ کارفرما ہوتی ہے وہ افرادی قوت ہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک ترقی پذیر ہے یا ترقی کے معاملے میں پستی کی جانب جا رہا ہے تو اس کا مطلب وہاں کے لوگوں کی افرادی قوت کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب ایک طالب علم ڈاکٹر، انجینئر یا پھر کوئی اپنا تعلیمی سفر مکمل کرکے مستقبل کے روشن خواب لے کر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اس وقت اس کا جوش و خروش دنیا کو سر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تعلیم کے بعد ہنر کے مواقع اگر آگے بڑھنے کے لیے میسر ہو جائیں تو ایک پرجوش شخص کی محنت اور افرادی قوت کا صحیح استعمال ملک کی ترقی اور معاشرتی ذہنی سکون کے باعث ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ ترقی یافتہ ملک بن جاتا ہے۔

جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، اسی طرح ہر پہلو کے بھی دو رخ ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ اگر کسی ملک کی توانائی کا صحیح استعمال ملک کو ترقی یافتہ بنا سکتا ہے تو اسی افرادی قوت کا غلط استعمال ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ افرادی قوت کا غلط استعمال ہے۔ ملک میں ہزاروں نوجوان ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر بننے کے بعد خوبصورت مستقبل کے خواب سجا کر عملی زندگی میں جب آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں زندگی کے تلخ حقائق کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ جوش و خروش ولولہ سب ایک بھر بھری ریت کی مانند بھکرنے لگتا ہے۔ ملک میں ڈاکٹر تو ہیں مگر کام کرنے کے لیے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔

موجودہ ملکی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ نوجوانوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں اپنے جوش و خروش سے خود کو منوایا ہے۔ چاہے آزادی کی جنگ ہو یا پھر ملک کی ترقی ہو، نوجوان نسل اس میں ایک مضبوط ستون کی مانند نظر آتی ہے۔ مگر آج کل کے دور میں نوجوان نسل گمراہی کے دہانے پر بھی کھڑی ہے۔ اس کی بڑی وجہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن عناصر موقعہ دیکھ کر نوجوانوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جوکہ ملکی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ انہیں ہی ملک دشمن بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں ہونے والا واقعہ نورین لغاری والا واقعہ ہے، جو داعش سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گئی۔ داعش خود ایک انتہاپسند تنظیم ہے، جس کے کارناموں سے سارا جہاں واقف ہے۔

ہمارے ملک میں آئی ہوئی انتہاپسندی کی لہر آج کی بات نہیں ہے بلکہ اس کا پورا ایک پس منظر موجود ہے۔ آج سے چند دہائیاں قبل افغانستان میں قائم سوشلسٹ حکومت کے اختتام اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس نے انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ اس لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہمارا ہی ملک ہوا ہے۔ مگر یہ سلسلہ نائن الیون کے بعد اور بھی شدت پکڑ گیا۔ جب امریکا نے افغانستان پر حملا کر دیا اور وہاں موجود طالبان ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس طرح انتہاپسندی کا ایندھن پھر بھی نوجوان ہی بنتا رہا۔ مگر اس کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔

دس برسوں کے عرصے تک دہشتگرد عناصر مختلف شکلوں میں نمودار ہوتے رہے۔ اور مختلف تنظیموں کے ذریعے کارروائیاں کرتے رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو جنت کا لالچ دے کر نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر لاتے رہے ہیں۔ جہاد کے نام پر جو جنگ لڑی گئی اس میں نوجوانوں نے ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ یہاں تک کہ دہشگرد عناصر مسجد، مدرسے، یونیورسٹی اور کالج تک پہنچ گئے۔ اور وہاں پر ہی ان تمام نوجوانوں کے برین واش کیے گئے۔ اسلام تو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ نہ کہ گولی چلانے کا۔ مذہب خواہ کوئی بھی ہو اس میں انسانیت کو فوقیت حاصل ہے۔ بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کسی بھی نظریے کی انتہاپسندی اچھا عمل نہیں ہے، چاہے وہ لبرلزم کی شکل میں ہو یا سیکولزم کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔

اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارے، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ہر مذہب اور ہر فرقے کا احترام کریں۔ اس لیے ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں اہم ترین مثال ملالہ یوسفزئی کی ہے جس نے انتہاپسندوں سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور آج تک بھی وہ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ نوجوانوں کے کردار بنا ہم انتہاپسندی کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کی یہ اہم ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ جس طرح فوج نے انتہاپسندی کو ختم کرنے کے مختلف آپریشن کیے ہیں، اس طرح ہمارے نوجوانوں کو بھی ذہنی آپریشن کے ذریعے کوشش کرنی پڑے گی۔ آج اگر ہمارے ملک میں امن کی فضا قائم ہوئی ہے تو وہ فوج کی جانب سے کیے جانے والے آپریشنز کی وجہ سے ہے۔

ہمارے ملک میں صرف مسلمان آباد نہیں ہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔ ہندو، عیسائی اور پارسی آبادیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہمارے ملک کا کلچر کافی رنگین ہے۔ اگر ہم مذہبی رواداری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور تمام مذاہب کے لوگوں کو برداشت کرنا سیکھ لیں۔ نوجوانوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ یہاں پر بسنے والے تمام مذاہب کا احترام کرنا لازمی ہے تو ہمارا یہ رویہ بھی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں مدد دیے سکتا ہے۔ کیونکہ مذہبی رواداری ہی انتہاپسندی کے لیے تریاق ثابت ہوسکتی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ 1944 کو طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ”اسلام ہمارا رہنما ہے اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہمیں کسی سرخ اور پیلے، پرچم کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمیں سوشلزم، کمیونزم اور نیشنلزم یا کسی دوسرے ازم کی ضرورت ہے۔ رنگ و نسل کے تعصبات کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، سندھی، بلوچی، پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال قبل آپ کو سکھایا گیا تھا۔ یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں۔ پٹھان ہیں بلکہ ہم مسلمان ہیں“۔

کسی کا خون بہا کر نام روشن کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے وطن کا نام انسان بن کر روشن کریں، ہم اپنا تعلیمی نظام اتنا بہتر بنائیں کہ ہماری قوم سب سے آگے نکل جائے۔ آج پاکستان غربت میں گھرا ہے اور تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم جدید ٹینکالوجی سے لیس ہو کر بھی اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خاموشی سے اپنا کام کرنا چاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل کا نوجوان ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے مگر اس کے لیے اسے اتنے مواقع میسر نہیں ہیں۔ مگر پھر بھی چند ایسے نوجوان کردار ہیں جنہوں نے اس ملک کے بہت کچھ کیا ہے۔ جن میں عرفہ کریم، مریم شیخ اور اقرار حسین شامل ہیں۔

جس طرح اولمپکس میں ایک کھلاڑی دوڑ کے مقابلے میں دنیا کے تمام ممالک کے کھلاڑیوں کا ہرا کر فتح کے جھنڈے گاڑتا ہے، اسی طرح ہم بھی انتہاپسندی کے رویوں کو ترک کر کے ایک پاک صاف معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت صرف اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ہے۔

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہرچند کہ دنا اسے گھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
**
میرے وطن کی مٹی نیلام ہونے لگی ہے
بغاوت اس کی سرعام ہونے لگی ہے
بھیج دو کوئی موسیٰ اے میرے رب
کہ کافروں کی فرعونیت عام ہونے لگی ہے

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh