ایجنسیوں کے سائے میں مرغے


اب ہم ایک عظیم جوہری تو تھے ہی۔ ایک بڑی کمپنی کے مالک بھی تھے۔ کام بھی ہیروں جواہرات کا کرتے تھے۔ گوری کی نوکری کو لات مار کر اپنا دفتر بنا لیا تھا۔ اپنے امریکی باس کی سکھائی ہوئی حلال دی ترکیبیں استعمال کر رہے تھے۔ اسلام آباد سفارت کار گوروں کے کچھ کلب بھی ہوتے تھے۔ ان سب میں ہم اپنا چھابہ لگا کر کئی گوروں کو اپنا مداح بنا چکے تھے۔ ظاہر گوریوں کو بھی۔ ڈالر بھی دیکھ چکے تھے کہ ہرے رنگ کا ہوتا۔

ان دنوں فراغت تھی کوئی شو بھی نہ تھا۔ کام کو بریک لگی پڑی تھی۔ صرافہ بازار کے لالے ہمیں بھولتے جا رہے تھے۔ فون بجا اٹھا لیا کرنل فلاں بول رہا ہوں۔ آپ سے کام ہے۔ ”ہیں مجھ سے؟“ مر گیا، پھنس گیا۔ کرنل صاحب کو ٹھیک میرے دس سال پرانے کابل دورے کا پتہ لگ گیا ہے۔ اب مجھے الٹا ٹنگ کر فرائی کریں گے۔ ہماری ہیں سے ہی کرنل صاحب کو ہماری عقل سمجھ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا وہیں رک دستہ آ رہا تم سے ملنے۔

تھوڑی دیر میں ایک میجر صاحب دو لفٹین لے کر آن پہنچے۔ میرے نام وغیرہ کی تصدیق کی۔ اب یقین ہو گیا کہ یہ کابل دورے کا ہی چکر ہے۔ زمان بھی دفتر میں جھاتی مار کر بھاگ گیا کہ خان اس بہ دوی برابرئی۔ یعنی خان اب تمھیں یہ برابر کریں گے۔ زمان عجیب مخلوق تھا ہم جب تاش کھیلتے۔ وہ آ کر نعرہ لگا دیتا خان پولس یعنی خان پولیس آ گئی۔ اچانک یاد آیا کہ کابل تو جہاد کی نیت باندھ کر گئے تھے۔ اب ضرور ہمیں کسی مشن کا سربراہ مقرر کیا جاوے گا۔ میجر صاحب بولے ہم لوگ آرمی سٹیڈیم پشاور میں مینا بازار لگا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی فرم وہاں سٹال لگائے۔

اوہ ان کو ہم سے کام ہے اب بتاتا انہیں۔ بیڑہ غرق ہو اس امریکی کا جو ہمارا استاد تھا۔ اپنی جیولری فرم کی حد میں پاکستانی اور افغانی گاہک کو بھی نہیں گھسنے دیتا تھا کہ لفنگے ہی ہوں گے۔ ہم نے اسی امریکی سوچ کے تحت نہایت اطمینان سے بغیر سوچے سمجھے جواب دیا کہ مینا بازار میں سٹال لگانا کمپنی پالیسی کے خلاف ہے۔ کمپنی کی حالت یہ تھی کہ مالک سے لے کر چپڑاسی تک کے تمام عہدے ہمارے پاس ہی تھے۔ زمان تھا تو ہمارا اسسٹنٹ لیکن صاحب ہی تھا۔

میجر صاحب کا ہاسا نکل گیا پوچھا کہ یہ پالیسی اسی کمپنی کی ہے جو گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک آفس ٹیبل کے پیچھے چھپی بیٹھی۔ دل کڑا کر کے کہا سر قیمتی پتھروں کا معاملہ ہے بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ آرمی سٹیڈیم میں سٹال لگا کر عام عوام کے سامنے بیٹھنا سیکیورٹی رسک ہے۔ میجر صاحب نے کہا اچھا تو بیٹا اب فوج کو سیکیورٹی معاملات اور رسک آپ بتائیں گے۔ کل صبح تک وہاں سٹال لگ جائے۔ چیف صاحب کی بیگم نے آنا ہے افتتاح کرنے۔

اک تھرڈ فورتھ ائیر کا سٹوڈنٹ جتنی عقل کا مالک ہوتا اس کے مطابق کہا سر اسی لٹے ہی نہ جائیں۔ سر نے اک گھوری ڈالی اور ہماری بس ہو گئی۔ سٹال کا جائزہ لینے پہنچے تو ہمیں جو جگہ الاٹ کی گئی تھی اس میں چار فوجی ٹرک دو تین توپیں ایک آدھ ٹینک کھڑا ہو سکتا تھا آرام سے۔ سر نے جگہ دکھا کر پوچھا کیسی ہے کہا سر اس کو بھرنا کیسے ہے ہمارا سامان تو آدھے بریف کیس میں آجاتا ہے۔ سر نے اپنے بوٹ کی جانب دیکھا پھر آسمان کو دیکھا پھر ہمیں دیکھا۔ عقل مند نہ ہوتے ہوئے بھی سب سمجھ آ گئی۔

صرافہ بازار پہنچے اور دانشور سنیاروں کا اجلاس بلا کر اپنا رونا رویا۔ پشوری لالے ویسے بھی دل پھٹانے والی باتیں کرنے میں مشہور ہیں اس دن تو حد ہی کر دی۔ بہرحال ایک افغانی استاد کاریگر کو مشر نے غیرت دلائی۔ وہ خود بھی غیرت کر گیا اور پشوری لالوں کو بھی ورغلا دھمکا کر تیار کر دیا۔

ہم نے ہیروں کی کچھ انگوٹھیاں بھی اکٹھی کر لیں۔ سٹال پر جا کر ٹیبل لگائے اپنا سامان وہاں سجایا اور بیٹھ گئے۔ سیل مین کے طور پر منتیں کر کے چھوٹے بھائیوں کے ہم جماعت اکٹھےکیے۔ ملٹری پولیس کا ایک ہیرو موافق سپاہی بھی ہمارے سٹال کے آگے مسلح بٹھا دیا گیا۔

آرمی سٹیڈیم کا پورا گول چکر شاید دو کلومیٹر کا ہی ہو گا سٹال والوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ وہاں ہم ویلے بیٹھے ہوا کھا رہے تھے۔ چیف صاحب کی بیگم آئیں افتتاح کیا اور ہمارے سٹال کی جانب جب دوڑی آ رہی تھیں تو کسی نے ان کے کان میں پھونک ماری کہ سول ہیں۔ وہ مڑ کر فوجی سٹال دیکھنے چلی گئیں اور ہم جمائیاں لینے لگے۔ مہمان خصوصی کے جاتے ہی سٹیڈیم عام عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ لوگ سیدھا ہمارے سٹال پر آ کر بریک مارتے۔ ہمیں سامان گم جانے چوری ہونے کے اپنے سارے منحوس خدشات درست ہوتے دکھائی دینے لگے۔

کرنل صاحب نے خود آ کر بتایا کہ بیٹا آپ نے گھبرانا نہیں سیکورٹی کا انتظام کر دیا گیا ہے ۔ مینا بازار اک انوکھا تجربہ تھا خواتین جس انہماک سے جیولری اور قیمتی پتھروں کی ڈیکوریشن کی جانب متوجہ ہوئیں وہ حیران کن تھا۔ سستی قسم کی افغان جیولری دھڑا دھڑ بکنے لگ گئی۔ لڑکیوں کو اتنی انگوٹھیاں پہنائیں کے کنوارے افسر جیلس بھی ہو گئے۔ بہت سوں نے وہیں کیمپ ہی لگا لیا۔ سینیئر کو کھڑا دیکھ کر جونیئر ذرا پرے ہو کر منڈلاتے رہتے۔

یوں تو ہر تھوڑی دیر بعد حوصلہ دلا دییا جاتا تھا۔ بیٹا گھبرانا نہیں آپ کی کسی چیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن بیٹا اچھی سیل اور اپنے پشاور کے حسن کو ڈھیروں ڈھیر دیکھ کر مست تھا۔ پہلے سیل مین منت ترلا کر کے لائے تھے اب وہ چھٹی کرنے کھانا کھانے ایک منٹ کا وقفہ کرنے کو بھی تیار نہ ہوتے تھے۔

ہم جب بالکل بے غم ہو چکے تھے انہونی ہو گئی۔ رات کو اس وقت بجلی چلی گئی جب سٹال پر بہت رش تھا۔ یقین ہو گیا کہ سامان گیا سارا، اب پنڈ کی زمین بیچیں گے، تب ہی لالوں کی رقمیں ادا ہوں گی۔ یک لمحاتی خیال فوری تحلیل ہو گیا۔ ایک بہت مضبوط ہاتھ نے گردن پکڑ کر کان میں اعلان کیا۔ سر تساں گھبرانا نہیں تھاڈے ہر گاہک تے ساڈا ہک بندہ لگا ہویا (سر آپ نے گھبرانا نہیں، آپ کے ہر گاہک کے ساتھ ہمارا ایک بندہ لگا ہوا ہے)۔ جنریٹر آن ہوا تو بجلی آ گئی۔

ایک قابل دید نظارہ دیکھنے کو ملا۔ سارے سیل مین سارے مرد گاہک تقریبا مرغ حال رکوع میں کھڑے ملے۔ اتنے فرشتے اکٹھے دیکھ کر ایمان تازہ ہو گیا۔ ہم سب ہی سمجھ بھی گئے سب ہی شرما بھی گئے۔ فرشتے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل بھی ہو گئے۔ جس حوالدار نے گردن پکڑی تھی وہ کھڑا رہا۔ اس سے دوستی ہو گئی۔

اک مدت تک اس کا فون آتا رہا وہ خود بھی دفتر چکر لگاتا رہا۔ او سر کوئی تنگ تے نہیں کر دا۔ کوئی کم ہو تو بتانا۔ چھوٹا نہیں کوئی وڈا کم ہو تو وہ بھی کریں گے۔ اس مستقل رابطے سے ہم گھبرانے لگ گئے تھے۔ اک دن وڈا کم بتا ہی دیا کہ یار ایسے کریں مارشل لگا کے اسمبلی تڑوا دے۔ بندہ غائب ہو گیا۔ اسمبلی تھوڑے عرصے بعد ٹوٹ گئی۔ یہ نہیں بتانا کہ کونسی والی۔ ہمیں جیالوں یا متوالوں سے بددعائیں تھوڑی لینی ہیں بھلا۔
بتا دیا تو اس بھائی کا کیا پتہ اب آ کر اپنے پروں کے سائے میں مرغا بنا دے۔ اب تو بنا بھی نہیں جاتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi