سویلین بالا دستی اور شعبہِ امراض قلب پہ حکومتی چیرہ دستی


اللہ بھلا کرے ٹرمپ کا کہ دسسمبر کی جان لیوا سردی میں مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں گیس کی عدم فراہمی کے سبب ٹھتھرتے وجودوں اور بند دماغوں کو بیت المقدس کے پہلے پیار کی تپش فراہم کر دی۔ اب ہم ہوں گے، سڑکیں ہوں گی، جلاوٴ گھیراوٴ ہو گا، یہود و ہنود کی ملمع کاریوں کا پردہ چاک ہو گا۔ لہٰذا اتنے پر ہنگام نقارخانے میں دل کے مریضوں کی درد دور کرنے والے طوطیوں کی آواز کس نے سننی؟

جمہوریت کی گردان گرداننے والے حکمرانوں اور اس کے ثمرات بتانے والے دانشوروں کو یہ نقطہ کون سمجھائے کہ جمہوریت سے جمہور کی وابستگی و پیوستگی اس نقطہ میں پنہاں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کے جائز مطالبات بلا تاخیر پورے کریں گے۔ لیکن یہاں تو عوام کیا عدالتی احکامات اور پارلیمان کی سفارشات بھی حکومت ِ وقت نے جوتے کی نوک پر رکھ کر یوں اڑا دی جیسے قائدِ دین و ملت حضرت مولانا خادم رضوی صاحب نے باشندگانِ وطن کی پین دی سری۔

”سب سے پہلے پاکستان“ کے نعرے کے داعی اور آمرِ مطلق نے کسی محفلِ سرود و سرور میں کسی کاکلِ سرکش کے ہاتھوں اپنے دل کو گھائل ہوتے دیکھ کر اپنے عارضہِ قلب کو بھانپ لیا اور پیش بندی کے طور پر وفاقی دارالحکومت کے سب سےبڑے ہسپتال پمز میں امراضِ قلب کا ایک یونٹ تشکیل دینے کا حکم دیا۔

پراجیکٹ دو سالوں میں مکمل ہونا تھا لیکن بیوروکریسی کی فائلوں پہ معرکہ آرائیوں اور لفظی صناعیوں کے سبب 2007 کی بجائے 2012 میں مکمل ہوا۔ عمارت کی تعمیر سے ٹھیکیدار اور بیوروکریٹ نے فیض پایا۔ جدید آلات کی خریداری کے عمل میں پمز کے منتظموں نے ہنر دکھایا اور شعبہِ امراض ِ قلب ماہر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف جن کو عارضی بنیادوں تعینات کیا گیا تھا، مستقل ہونے کی تسلی دی گئی۔ یہ ڈاکٹرز امراضِ قلب کے چوٹی کے ڈاکٹرز، ماہر پیرا مہڈیکل سٹاف اور دیگر عملہ سینکڑوں مریضوں کے قلوب کی رفوگری کرتے رہے۔ پی پی پی کے دور میں عارضی ملازمین کو مستقل کرنے والی کمیٹی میں بیوروکریسی نے ان مسیحاوٴں کا کیس بھیجنے کی زحمت گوارا نہ کی اور بعد میں وزارتِ قانون و انصاف کے قانونی دماغوں نے لوگوں کے دردِ قلب پر پھاہے رکھنے والوں کی تالیفِ قلب اس قانونی نقطہ سے کی کہ آپ کا کیس اس کمیٹی میں اس لئے نہیں بھیجا جا سکا کہ آپ پراجیکٹ امپلایئز ہیں۔

پی پی پی کے دور میں لاکھوں عارضی ملازمین مستقل ہوئے لیکن دردمند دلوں کو شفایاب کرنے والے ہاتھ اپنے قلبِ مضطر کو تھامے اقتدار کے ایوانوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے۔ غریب کو روزگار فراہم کرنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والی پی پی پی کا ”دورِ سیاہ“ اختتام کو پہنچا اور اندھیرے دور کرنے والے، 2050 کا وژن دینے والے، یونیورسٹی کے طلبا٫ میں لیپ ٹاپ بانٹنے والے اور گوادر تا سنکیانگ تک سڑکوں کے کالے ڈورے بچھا کر مملکتِ خداداد کو ایشین ٹائیگر بنانے والوں کی حکومت آئی۔

یوں جمہوریت اور جمہور کے درمیان جمہور کے منہ سے نوالہ چھیننے کا چوہے بلی کا کھیل شروع ہوا۔ کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیرِاعظم نے حکم دیا کہ تمام وزارتیں اپنے اپنے عارضی ملازمین کی فہرستیں فراہم کرے اور ان کے کنٹریکٹ میں وہ مزید توسیع ےسے گریز اں ہیں۔ یوں جمہوری فرمان کے تحت ہزاروں چوکیدار، چپڑاسی، کلرکس، اساتذہ، ڈاکٹرز، نانِ جویں سے محروم کر دیے گئے۔ کچھ ملازمین جو غالب کے اس قولِ زریں

قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری بھی فاقہ مستی ایک دن
کے معتقد تھے وہ قرض لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے درودیوار سے سر ٹکرا کر انصاف مانگنے نکل پڑے۔

وزیراعظم بھی غالب کے معتقد تھے۔ وہ قرض لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے درودیوار سے سر ٹکرا کر انصاف مانگنے نکل پڑے۔ باقیوں نے نانِ جویں کے لئے کہیں اور خون پسینہ بہانا شروع کر دیا۔ وزیرِ اعظم کے ”روزگار چھینو“ کے حکم نامہ کی زد سے پمز کے شعبہِ امراضِ قلب کے ڈاکٹرز بھی محفوظ نہ رہے۔ اور انھیں بھی فارغ کرنے کا عندیہ دے دیا گیا۔ بھلا ہو پارلیمان کے ایوانِ بالا میں بیٹھے چند دردمند سینیٹرز کا جنھوں نے اس معاملے کے لئے بھرپور کوشش کی۔ بیوروکریٹس کی زد سے ان ڈاکٹرز کو محفوظ رکھا گیا۔ آخر کار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ان تجربہ کار ڈاکٹرز اور طبی عملہ ہی کی وجہ سے سینکڑوں مریض پمز میں فیضِ یاب ہو رہے ہیں تو اگر انھیں نکال دیا گیا تو شعبہِ امراضِ قلب کیسے چلے گا؟

مزید برآں اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی سال اس سینٹر کو دینے کے بعد یہ انتہائی پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ اوور ایج ہو چکے ہیں اور کہیں اور نوکری کے اہل نہیں رہے۔ لہٰذا کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیِرِاعظم صاحب سے ایوانِ بالا نے متفقہ گنتی کے بعد سفارش کی کہ ان ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ یہ سفارش 2015 میں کی گئی لیکن وزیراعظم صاحب نے فائل پہ اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور زبانِ حال سے پیغام دیا کہ
”کارِ جہاں دراز ہے اب انتظار کر“

یوں ان ڈاکٹرز کی مستقلی کی فائل وزیراعظم صاحب کے قلم کی راہ تکتی رہی اور دو سال تک یہ پڑھے لکھے بغیر تنخواہ کے کام کرتے رہے۔ وزیراعظم صاحب کا قلمِ ستمگر کے اس فائل تک پہنچنے سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کا قلم وزیراعظم صاحب کی پانامہ کی فائل تک پہنچ گیا۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہزاروں ملازمین کو نکالنے والے وزیراعظم ایوان وزیراعظم سے یہ نعرہِ مستانہ لگاتے ہوئے نکلے ”مجھے کیوں نکالا“۔

نئے وزیراعظم صاحب جو پہاڑوں کے مکین ہیں اپنی سرشت میں شاہین کی جیسی سرعت لئے پھرتے ہیں، انھوں نے اپنے عملہ کو حکم دیا کہ چار سال سے منتظر فیصلوں کی فائلیں میرے سامنے لائی جائیں۔ اور یوں یہ بدقسمت فائل بھی وزیراعظم صاحب کی میز تک پہنچی۔ ڈاکٹرز کی مستقلی کی سمری کے لئے وزیراعظم کے سیکرٹری کا آخری نوٹ کچھ یوں تھا۔

چونکہ یہ ڈاکٹرز گزشتہ دو سال سے بغیر کسی کانٹریکٹ اور تنخواہ کے کام کر رہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا جرم ہے کیونکہ سرکاری ملازم کی بنیادی تعریف ہی یہی ہے کہ تنخواہ اور تمام تر مراعات لے کر بھی کوئی کام نہ کیا جائے۔ لہٰذا یہ سول سروس قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس لئے ان ڈاکٹرز کو نہ صرف نوکری سے برطرف کیا جائے بلکہ ایف آئی اے سے ان کوائری کروا کر پسِ دیوارِ زنداں پھینکا جائے۔

عقابی صفت وزیراعظم نے تحسین آمیز نظروں سے اپنے فواد کو دیکھا اور اپنے دستخط ثبت کر دیے۔ وزیراعظم صاحب نے دستخط کرنے سے پہلے سمری پہ اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی جس پہ لکھا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان ڈاکٹرز کو مستقل کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کے خلاف کسی بھی ایکشن سے منع کیا ہے اور ایوان بالا نے بھی ان کو مستقل کرنے کی سفارش کی ہے۔ لیکن وزیراعظم صاحب نے اس کو درخور اعتناء نہ سمجھا بلکہ یہ سوچا کہ کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیراعظم کو اگر پانچ ججز نکال سکتے ہیں تو کروڑوں لوگوں کا منتخب وزیراعظم بھی عدلیہ اور پارلیمان کی سفارش کو رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یوں جمہور کے مسیحاؤں سے روزگار چھین کر وزیراعظم نے جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).