جرم کرو، مسجد صاف کرو اور چھوٹ جاؤ۔ نیا عدالتی پیکیج!


پاکستان میں صرف چند ماہ میں عدالتوں سے مجرموں کو ایسی سزائیں ملی ہیں کہ سینکڑوں سوال اٹھہ رہے ہیں کہ کیا جرم کرو، پکڑے جاؤاور صرف مسجد کی صفائی کی سزا پاؤ، اور بھی سنگین جرم کرو پکڑے جاؤ، تین سال تک پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی سزا پاؤ؟

اس دنیا میں بھی معاملہ حل ہو گیا، ثواب بھی مل گیا اور اُدھر بہشت کی نوید بھی مل گئی۔ مگر اس طرح کی سزائیں ان مجرموں کے لئے تو باعث رحمت ہیں جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں اور باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں۔

کچھ دن قبل کراچی میں عدالت نے ایک مجرم کو ناجائز اسلحہ رکھنے پر تین سال تک پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی سزا سنائی ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ جناب حلیم احمد صاحب نے یہ سزا دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجرم یوسف نے ایک بھی نماز چھوڑی تو مزید 7 سال قید اور 50ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ پولیس نے یوسف کو غیر قانونی اسلحہ کیس میں گرفتار کیا تھا جس کا کیس عدالت میں دو سال سے زیر سماعت تھا۔

اس معاملے پر عالم دین مفتی زبیر کہتے ہیں عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔
مگر ممتاز قانون دان شہاب اوستو کا کہنا ہے جج صاحبان اپنے طور پر سزا تجویز کرنے کے لئے بااختیار تو ہیں مگر سزائیں ملک کے مروجہ قانون کے تحت ہی ہونی چاہیے اور پاکستان کے قانون میں عبادت کرنے جیسی سزائیں موجود نہیں ہیں۔

اس سے پہلے کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے پروٹوکول میں موجود پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے والے ملزم قاسم کوجرم ثابت ہونے پرایک سال تک پلے کارڈ اٹھا کر روڈ پر کھڑے ہونے کی سزا سنائی تھی۔

اس سے بھی انوکھی سزا سندھ کے شہر دادو میں دو ماہ قبل دی گئی ہے جہاں عدالت نے ملزم عامر پر تین کلو گرام منشیات رکھنے کا الزام ثابت ہونے کے بعد اسے سزا سناتے ہوئے ایک سال تک محلے کی مسجد میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے میں مجرم کو مسجد کی صفائی اور نماز کے اوقات میں مسجد کو کھولنے اور بند کرنے کی ہدایت بھی کی اور ساتھ ہی پیش امام صاحب کی ڈیوٹی لگائی کہ مجرم کی کارکردگی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔

پیش امام کا کہنا ہے کہ مجرم مسجد میں پانچ وقت کی نماز باجماعت کی ادائیگی اور صفائی کے امور نہایت دیانت داری سے انجام دیتا ہے۔ میڈیا میں خبر آئی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس احمد علی شیخ صاحب نے اس طرح کی سزاؤں کا نوٹس لے لیا ہے اور رپورٹس طلب کی ہیں۔ امید ہے کہ جناب جسٹس احمد علی شیخ صاحب جو لاڑکانہ کے ایک بہترین وکیل رہے ہیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے مروجہ قانون کا بول بالا کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).