ہمارے بچوں کا سولہ دسمبر تو روز آتا ہے


سولہ دسمبر ہماری تاریخ کے منحوس ترین دنوں میں سے ہے۔ ہمارے سے پچھلی نسل نے اس تاریخ کو قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہوتے دیکھا تھا۔ سنا ہے کہ ایک طویل عرصے تک وہ غمزدہ رہے تھے۔ سولہ دسمبر کے بعد انہیں نارمل ہونے میں بہت وقت لگا تھا۔ ہماری نسل نے اس تاریخ کو آرمی پبلک سکول کا قتل عام دیکھا۔ ہم بھی کئی دن شدید غم کی لپیٹ میں رہے۔ کئی دن ٹھیک سے کھا پی اور سوچ تک نہ سکے۔ یہ تصور کرنا ہی محال تھا کہ کیسے کوئی انسان ننھے بچوں کے پاس جا جا کر ان کے سروں میں گولیاں مارتا رہا ہو گا۔ بچوں کی لاشوں کو دیکھنا پڑا۔ ان لاشوں کو اٹھانے والوں سے جب ان کی حالت کے بارے میں سنا تو دل تھم تھم گیا۔ تین برس ہو گئے ہیں مگر آج بھی شدید صدمہ ہے۔

اس وقت تو خیر سب ریاستی بڑوں نے جوش میں آ کر نیشنل ایکشن پلان وغیرہ بنا دیا، مگر اس کی کامیابی صرف فاٹا میں فوجی فتوحات تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے۔ آج تو یہ حال ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی ریاست نے باضابطہ طور پر اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں مٹھی بھر انتہا پسندوں کے آگے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔

انتہاپسندوں کے سامنے تو چلو ریاست مجبور ہے اور وہ ان سے ڈرتی ہے، مگر کم از کم وہ عام مجرموں سے اپنے بچوں کو تحفظ تو دے دے۔ ہمارے بچوں کا سولہ دسمبر تو روز آتا ہے۔

ابھی چند دن پہلے رینالہ سے چھے برس کی ایک بچی ایمان فاطمہ اغوا ہوئی۔ ڈھونڈا گیا۔ نہیں ملی۔ پولیس نے چند مشکوک افراد پکڑے تو ان میں سے ایک نے اگلا کہ اس نے اور اس کے بہنوئی نے مل کر اس ننھی جان کا ریپ کیا ہے اور اسے اینٹوں سے وار کر کے قتل کیا ہے اور لاش کماد کے کھِیت میں پھِینک دی ہے۔

ہم حیران ہوتے تھے کہ کوئی انسان کیسے کسی ننھے سے بچے کے قریب جا کر اس کے سر میں گولی مار سکتا ہے۔ ان ظالموں نے تو ایک معصوم سی بچی کے سر میں اینٹیں مار مار کر اسے مار ڈالا۔ اتنے وحشی تو جانور بھی نہیں ہوتے۔ نیشنل جیوگرافک پر بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ کسی درندے نے کسی جانور کو مارا ہے تو اس کے پاس بچے دیکھ کر پریشان ہو گیا ہے۔ اس نے شکار چھوڑ کر ان بچوں کی حفاظت کی ہے۔ اس جانور کے بچوں کی جس کو قدرت نے اس کی خوراک مقرر کیا ہے۔ مگر یہ انسانی درندے تو ان جنگلی درندوں سے کہیں بڑھ کر خون آشام ہیں۔ یہ تو اپنے بچے بہیمانہ طریقے سے مار ڈالتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس نہایت خوبصورت بچی کی تصویر بہت دکھائی دی۔ اتنی معصومیت ہے اس کے چہرے پر۔ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا پکڑا ہوا ہے اور چہرے پر موجود مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ ماں باپ سے یہ فرمائش پوری کروا کر وہ خوشی سے نہال ہو رہی ہے۔ ساتھ دوسری تصویر ہے۔ اس کی لاش کھیت میں پڑی ہے۔ جسم میں جان نہیں ہے مگر آنکھیں زندہ ہیں۔ لگ رہا ہے کہ مر کر بھی اسے یقین نہیں آیا کہ کوئی انسان اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ بچی کا نام ایمان فاطمہ ہے۔

ایک ایمان فاطمہ کے بارے میں حافظ آباد بھی مغموم ہے۔ جنوری 2015 میں سات برس کی ایمان فاطمہ کو اغوا کر کے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ نومبر 2016 میں گوجرانوالہ میں سات برس کی ایمان فاطمہ نامی بچی کو درندگی کی نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے لاش کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ فروری 2017 میں قصور کی چار برس کی ایمان فاطمہ نامی بچی کو وحشی ایسے ہی درندگی کا نشانہ بنا کر مار ڈالتا ہے۔ 5 اگست 2017 کو رائے ونڈ سے اغوا ہونے والی ڈیڑھ سالہ ایمان فاطمہ نامی لڑکی کی لاش گندے نالے سے برآمد ہوتی ہے۔ لاش کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ یہ صرف ایمان فاطمہ نامی بچیوں کے بارے میں حالیہ جرائم کا بتایا ہے۔ باقی کتنی بچیاں ہوں گی جو اس وحشت کی بھینٹ چڑھی ہیں؟

آپ کو شاید قصور میں سینکڑوں بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کا کیس یاد ہو گا۔ شاید آپ کو لاہور کا جاوید اقبال نامی وہ قاتل یاد ہو جس نے سو سے زیادہ بچوں کو قتل کیا تھا۔ آپ نے حال ہی میں خبر پڑھی ہو گی کہ ایک مولوی نے بچے کو درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد چھت سے پھینک کر مار دیا اور اعتراف کیا کہ وہ پہلے بھی ایسے ہی ایک بچے کی جان لے چکا ہے اور اسے بھی دوران طالب علمی مدرسے کے دو استادوں نے ریپ کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ ریاست بچوں کے تحفظ کے لئے کیا کر رہی ہے؟ کیا ان جرائم میں ملوث افراد کو ایک دو ماہ کے اندر قرار واقعی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا حکومت ایسے اداروں کی نگرانی کر رہی ہے جہاں بچے بالغوں کے رحم و کرم پر ہوں؟ کیا وہ مدارس اور ہوسٹلوں میں بچوں کے تحفظ کو یقینی بنا رہی ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ہو رہا ہے تو صرف کاغذوں میں ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے ان بچوں کا سولہ دسمبر تو ہر روز ہوتا ہے۔

ہم مغرب کو برا بھلا کہتے ہیں کہ ادھر جنسی بے راہ روی ہے۔ مگر وہ اپنے بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں بے انتہا حساس ہیں۔ ادھر کوئی شخص اگر بچے کو غلط نیت سے سہلا بھی لے تو تمام زندگی کے لئے اس کا نام ایک رجسٹر میں درج کر کے اس پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں کہ وہ بچوں کے سکولوں اور پارکوں وغیرہ کے نزدیک نہیں جا سکتا ہے۔ جبکہ ہم تو یہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں کہ ہمارے ہاں بچوں پر جنسی جبر ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ بچہ بازی کی اصطلاح کہاں سے ہماری زبان میں در آئی ہے اور قدیم زمانے کے شعرا کے کلام میں جا بجا یہ کیسے اشعار ملتے ہیں؟ جب مرض کو چھپایا جائے گا تو اس کا علاج کیسے ہو گا؟ ہمارے بچوں کا سولہ دسمبر ہر روز آتا رہے گا۔
Dec 16, 2017

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar