سولہ دسمبر اور پنجرے میں بند برائلر مرغیاں


16 دسمبر واقعی بہت برا دن ہے۔ عبدالحئی کاکڑ کی تحریر  نے شدید ڈپریس کر دیا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے طالب علم ولید کے چہرے پر چھے گولیاں لگیں۔ ٹانگ پر گولیاں لگیں۔ جسم میں آٹھ گولیاں پیوست تھیں لیکن یہ حوصلہ مند بچہ زندہ رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ سیڑھیوں سے باہر جانے کی کوشش کی۔ ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا اور گر گیا۔ وہاں قدموں تلے روندا جاتا رہا۔ ہسپتال میں جب اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تو ہلنے جلنے سے معذور ہونے کے باوجود اس کا دماغ کام کرتا رہا۔ اس نے اپنی جان بچا لی۔

ملالہ، ولید، منیب یہ سب بچے ہمارے ہیں۔ جب ان پر حملہ ہوا تو ان کی عمریں اتنی ہی تھیں جتنی ہمارے اپنے بچوں کی ہیں۔ ان کے خون میں لتھڑے جسم دیکھ کر ہمارے ذہن میں اپنے بچوں کے چہرے آتے ہیں۔ دل دہلتا ہے اور خدا سے ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ملالہ اور ولید کی زندگی میں ہمیں اپنی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی قوم کی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن منیب جیسے جو مارے گئے ان میں ہمیں اپنی قوم کی موت بھی دکھائی دیتی ہے۔

سولہ دسمبر کے بعد ایک دم ہیجان پیدا ہوا۔ لیکن کیا بدلا اس کے بعد؟ کیا ریاست نے یک سو ہو کر مذہبی انتہا پسندی اور لاقانونیت کے خلاف کچھ کیا؟ کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ یہ ذہن کی جنگ ہے۔ علاقے چھیننے کی نہیں۔ ضرب عضب اور رد الفساد کے نتیجے میں طالبان کو فاٹا سے نکال دیا۔ مگر وہ واپس آئیں گے۔ ابھی چند دن پہلے تو خبریں آئیں تھیں کہ وزیرستان میں دوبارہ موسیقی اور حجام کی دکانوں پر پابندی لگ گئی ہے۔ یہ پابندی لگانے والے دوبارہ طالبان کے لشکر میں دکھائی دیں گے۔ طالبان کی نرسریاں ختم کرنے کے لئے ذہن بدلنے ہوں گے۔ ذہن کی جنگ لڑنے کا حوصلہ کس میں دکھائی دیتا ہے؟ کسی میں بھی نہیں۔

کیا سولہ دسمبر کے بعد بچوں کے سروں میں گولیاں مارنے والوں کو ہم برا سمجھتے ہیں یا ہم گولی کھانے والی ملالہ کو برا کہتے ہیں؟ اسی ایک سوال کے جواب میں ہماری تباہی دکھائی دیتی ہے۔ اگر قوم 9 اکتوبر 2012 کو یک مٹھ ہو کر ملالہ کے ساتھ کھڑی ہوتی تو وہی طالبان 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول میں ننھے بچوں کا قتل عام نہ کرتے۔ جب قوم کی اکثریت ملالہ کو مظلوم کہے گی اور طالبان کو ظالم، پھر کچھ امید بندھے گی۔

ہمارے لیڈروں کو پاناما چاہیے۔ حدیبیہ چاہیے۔ ریفرینس سے بچت چاہیے۔ ریفرینس میں سزا چاہیے۔ ایک لیڈر کی ٹانگ کھینچ کر دوسرا اس کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک لیڈر فیض آباد میں انتہا پسندوں کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے تو دوسرا خود کو طالبان کا باپ کہنے والوں کو کروڑوں روپے دیتا ہے اور انتخابات میں ان سے اتحاد کرتا ہے۔ تیسرے کو فکر بس یہ ہے کہ وہ طاقتوروں سے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچا لے۔ طاقتوروں کو ذہنی جنگ میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ سیاسی جنگ میں فتح پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

ریاست اسی وقت ان باغیوں اور انتہا پسندوں پر قابو پا سکے گی جب سب کو یہ دکھائی دے گا کہ ریاست سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ جو قانون بنا دے، اس پر عمل کرے گی۔ جو اس قانون کے آگے کھڑا ہو گا، طاقتور ریاست اس کو عبرت کا نشان بنا دے گی۔ ویسے ہی جیسے ستر سال پہلے انگریز کی حکومت میں ہوا کرتا تھا، جیسے چار سو سال پہلے اکبر اعظم کی حکومت میں ہوا کرتا تھا، جیسے چودہ سو سال پہلے خلافت راشدہ میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب ریاست کے سب ستون ایک دوسرے کی جڑیں کھود رہے ہوں تو ریاست طاقتور نہیں ہوتی، وہ مجبور ہوتی ہے۔ وہ اکبر کی سطوت نہیں ہوتی، وہ بہادر شاہ ظفر کی بے بسی ہوتی ہے۔

حکمران تو اپنے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ ہم پنجرے میں بند برائلر مرغیوں کی طرح بے بسی کے عالم میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کو ایک کے بعد ایک کر کے ذبح ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ اب تین ہی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ دیوبندی یا بریلوی طالبان آ جائیں گے جو ہمارا حال افغانستان یا ایران جیسا کر دیں گے۔ اتاترک آ جائے گا جو مذہب پر شدید پابندیاں عائد کر دے گا۔ یا پھر ہمارا شام بن جائے گا۔

اصلاح کی صورت کم ہے۔ کیونکہ پنجرے میں بند برائلر دیکھ رہے ہیں کہ قصاب کا ذہن بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہ بے بسی سے اپنے پنجرے میں بند ایک کے بعد ایک بچے کو قصاب کے ہاتھوں لہو میں نہاتا دیکھتے رہیں گے۔


اسی بارے میں

خون کے بلبلوں نے اس کی جان بچا لی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar