ڈاکٹر صفدر محمود اپنے خیالات قائد اعظم سے منسوب نہ کریں


مورخہ 15 دسمبر 2017 کے روزنامہ جنگ میں مکرم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا ایک مضمون ”قائد اعظم، ختم نبوت اور عید میلاد النبی ﷺ کے عنوان نام سے شائع ہوا۔ ہم ان کی اس بات سے متفق ہیں کہ قائد اعظم رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت رکھتے تھے اور ان کی اس بات سے بھی متفق ہیں کہ حب رسول ﷺ پر مولویوں کا اجارہ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے مضمون میں کچھ ایسے دعوے کیے ہیں جن کی تصحیح ضروری ہے اور تاریخی حقائق کا ایک تسلسل ان کے دعووں کی تردید کر رہا ہے۔ انہوں نے خورشید احمد یوسفی صاحب کی مرتب کردہ Speeches and Statements of Quaid e Azam Vol3کا حوالہ دے کر یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ سری نگر میں ایک بیان میں قائد اعظم نے فرمایا

” اس بیان میں قائد اعظم نے واضح کیا کہ وہ قادیان کے ناظم امور کے خط میں پانچ مئی کو یہ پوزیشن واضح کر چکے ہیں۔ مطلب یہ کہ احمدی مسلم لیگ کے رکن نہیں بن سکتے۔ کیونکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ “

ہم نے وہ خط بھی دیکھ لیا ہے جو قائد اعظم کو لکھا گیا تھا اور وہ خط بھی دیکھ لیا ہے جو کہ جواب میں قائد اعظم نے لکھا تھا۔ اور سری نگر کا بیان بھی دیکھ لیا ہے۔ ان میں کہیں نہیں لکھا کہ قائد اعظم نے کہا کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں یا وہ مسلم لیگ کے ممبر نہیں بن سکتے۔ یہ مکرم صفدر محمود صاحب کا اپنا خیال ہے جو کہ انہوں نے قائد اعظم کی طرف منسوب کر دیا ہے۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے زین العابدین صاحب نے قائد اعظم کو یہ خط لکھا کہ میں یہ بیان اخبارات میں بھجوا رہا ہوں کہ ایک احمدی پیر اکبر علی صاحب سے ملاقات میں قائد اعظم نے یہ کہا ہے کہ احمدیوں کے مسلم لیگ میں شامل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (Jinnah Papers, second series Vol.X p329)۔ اگر قائد اعظم احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتے تھے تو دو سطروں کا جواب کافی تھا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ آپ کو کس نے یہ کہہ دیا ؟ احمدی تو غیر مسلم ہیں اور ہر گز مسلم لیگ کے رکن نہیں بن سکتے۔ لیکن اسی کتاب کے صفحہ 339 پرقائد اعظم کا جواب لکھا ہے اور اس میں اس قسم کی کوئی بات نہیں لکھی اور نہ یہ لکھا ہے کہ آپ یہ بیان پریس میں ہرگز نہ بھجوائیں۔ اس خط میں جماعت احمدیہ کے ناظر امور عامہ کے نام خط میں قائد اعظم نے لکھا کہ میں نے پیر اکبر علی سے ملاقات میں انہیں مسلم لیگ کے دستور کی شق چار کا حوالہ دے دیا تھا کہ ہر مسلمان جو کہ برٹش انڈیا میں رہتا ہے اور اٹھارہ سال سے زاید کا ہے مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے۔ اس واقعہ کی آڑ میں جماعت احمدیہ اور قائد اعظم کے مخالفین نے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ مسٹر جناح نے مسلم لیگ کے دستور کی خلاف ورزی کی ہے اور override کیا ہے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم نے سری نگر میں یہ بیان جاری کیا کہ میں نے مسلم لیگ کے آئین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ اسے override کیا ہے۔ میں نے جماعت احمدیہ کے ناظر امور عامہ کو یہی لکھا تھا کہ مسلم لیگ کے دستور کے مطابق ہر وہ مسلمان جو کہ برٹش انڈیا میں رہتا ہے اور اٹھارہ سال سے زائد عمر کا ہے مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے اور یہ بات مسلم لیگ کے دستور میں لکھی ہے۔ اس بیان میں بھی اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور مسلم لیگ کے ممبر نہیں بن سکتے۔ یہ صفدر محمود صاحب کے الفاظ ہیں، قائد اعظم کے الفاظ نہیں ہیں۔ بہر حال اگر اب بھی صفدر محمود صاحب کا یہی اصرار ہے کہ ان کا نکالا گیا نتیجہ درست ہے تو اس کا فیصلہ تو بہت آسان ہے۔ اگر ان کی بات درست ہے تو پھر احمدیوں کو مسلم لیگ کا ممبر نہیں بنایا جا رہا تھا جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا ہے۔ اور اگر ان کا دعویٰ غلط ہے تو پھر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر بن رہے تھے۔ ہم بڑے ادب سے مندرجہ ذیل حقائق صفدر صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

1)1930میں مسلم لیگ کو اپنا سالانہ اجلاس کرنے بھی کافی دشواری پیش آئی تھی۔ دوسرے دن ہی کورم ٹوٹ گیا تھا اور وقت سے پہلے اجلاس بند کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ صاحب صدر بھی اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ 1931 میں مسلم لیگ نے امام جماعت احمدیہ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس وقت 13 دسمبر 1931 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والی ایک یادداشت میں لکھا ہوا ہے کہ نیشنلسٹ مسلمان مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں اورچوہدری ظفر اللہ خان تو یہ معاملہ امام جماعت احمدیہ کے سامنے رکھتے ہوئے جھجھک رہے ہیں۔ لیکن اگر حضور اس جماعت کو حکم دیں گے تو وہ جوق در جوق مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل ہوں گے اور یہ اجلاس کامیاب ہوگا۔ اس سے آگے امام جماعت احمدیہ کا جوابی تار ریکارڈ میں موجود ہے کہ انہیں دنوں میں قادیان میں جلسہ ہے اس لیے میں تو نہیں آ سکوں گا لیکن دہلی اور یو پی کے احمدیوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل ہوں۔ (File no. 156, All India Muslim League Record , National Archives Pakistan)۔ اگر احمدی مسلم لیگ کے ممبر ہی نہیں بن سکتے تھے تو پھر امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ سے یہ اپیل کیوں کی گئی کہ وہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل ہوں؟

2) اگر احمدی مسلم لیگ کے ممبر ہی نہیں بن سکتے تھے تو پھر ایک احمدی یعنی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مسلم لیگ کے صدر کیسے بن گئے؟ میں بہت ممنون ہوں گا اگر یہ بات مجھے سمجھا دی جائے۔

3) یہ غلط فہمی نہ پیدا کی جائے کہ صرف چوہدری ظفر اللہ خان ہی مسلم لیگ کے ممبر بن سکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے دور صدارت میں بھی دوسرے احمدی مسلسل مرکزی مسلم لیگ کے نہ صرف ممبر بلکہ مرکزی مسلم لیگ کے عہدیدار بھی بن رہے تھے۔ اگر مکرم صفدر صاحب اس کا ثبوت دیکھنا چاہتے ہیں توJinnah Papers Thrid series VolXV کا صفحہ 713ملاحظہ کریں یہ خط مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری شمس الحسن صاحب نے لیاقت علی خان صاحب کو 1940میں لکھا تھا۔ اور یہ صاحب احمدیوں سے ایک ذاتی معاملہ میں سخت ناراض تھے۔ انہوں نے اس خط میں واضح لکھا ہے کہ احمدی خواہ مخواہ یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ بعض لوگ احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے سے روک رہے ہیں۔ حالانکہ تین درجن سے اوپر احمدی تو مسلم لیگ کی کونسل کے ممبر بن چکے ہیں۔ اس لیے قواعد میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر بن رہے ہیں۔ یہ خط قائد اعظم کے دور صدارت میں لکھا گیا تھا۔ اس سے صفدر صاحب کا دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے۔

4) تحریک پاکستان کے اہم کارکن اور مسلم لیگ کے عہدیدار سردار شوکت حیات صاحب اپنی کتاب ’گم گشتہ قوم ‘ میں لکھتے ہیں

”ایک دن مجھے قائد اعظم کی طرف سے پیغام ملا شوکت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک دعاؤں اور حمایت سے نوازیں۔ “(گم گشتہ قوم مصنفہ سردار شوکت حیات صاحب ناشر جنگ پبلشر 1995ص195)۔ اگر قائد اعظم احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل بھی نہیں کرنا چاہتے تھے تو پھر امام جماعت احمدیہ کو دعا اور مدد کا پیغام بھجوانے کا کیا مطلب؟

5) 1947  میں پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے خود مسلم لیگ نے یہ میمورنڈم پیش کیا تھا کہ احمدی مسلمانوں کا فرقہ ہیں اور وہ پاکستان کی واضح حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ قادیان اس فرقہ کے نزدیک مقدس ہے اس لیے تحصیل بٹالہ کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔ اور یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ یہ میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا تھا۔ ہر گز نہیں۔ یہ میمورنڈم صدر مسلم لیگ تحصیل بٹالہ نے نے پیش کیا تھا۔ اور اس میمورنڈم میں احمدیوں کے لیے قادیانی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ احمدی اپنے آپ کو کبھی قادیانی کے نام سے نہیں پکارتے۔ اس وقت قائد اعظم صدر مسلم لیگ تھے اور یہ ناممکن تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف مسلم لیگ کا یہ موقف ایسے اہم فورم پر پیش کیا جاتا۔ اس وقت کئی مسلمان وکلا اور دو مسلم لیگ کے نامزد کردہ جج بھی موجود تھے۔ کسی نے اس کی تردید نہیں کی تھی۔ (The Parition of the Punjab, published by Sange Meel 1993 vol1 p 472)

6)خورشید احمد خان یوسفی صاحب کی کتابSpeeches and Statements of Quaid e Azam کے والیم 3 کا صفدر صاحب حوالہ دے کر غلط تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں اسی کتاب کے والیم 2 کا صفحہ نمبر 973 ملاحظہ فرما لیں۔ قائد اعظم فرما رہے ہیں کہ میں اپنی اور اپنی پارٹی کی جانب سے آنریبل سر ظفر اللہ خان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مسلمان ہیں اور یوں کہنا چاہئے کہ میں اپنے بیٹے کی تعریف کر رہا ہوں۔

ہم نے اس بارے میں چند نکات پیش کیے ہیں۔ بڑی نوازش ہو گی اگر مکرم صفدر محمود صاحب ان کے نمبروار جواب مرحمت فرمائیں۔ صفدر صاحب نے قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کے پیش کیے جانے پر کچھ غم و غصہ ظاہر کیا ہے۔ حالانکہ یہ تقریر تو اس لیے اہم ہے کہ یہ موقع آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کا تھا اور اس میں آئین سازی کی بات ہو رہی تھی۔ بہر حال ہم قائد اعظم کی دو اور تقریروں کے حوالے پیش کر کے اختتام کرتے ہیں۔

” In any case Pakistan is not going to be a theocratic state- to be ruled by priests with divine mission.”

بہر حال پاکستان کوئی مذہبی ریاست نہیں ہوگا کہ جس پر مذہبی لیڈر آسمانی مشن سے حکومت کریں۔

” Pakistan is not a theocracy or any thing like it.”

پاکستان کوئی مذہبی ریاست یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز نہیں ہے۔

(Jinnah Speeches as Governor General of Pakisatn 1947-1948, published by Sange Meel p 72 , 79)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).