خفیہ این آر او اور بادشاہ کی پسندیدہ لومڑی


تین ماہ سے ایک رٹ لگا رکھی تھی، جو نوے کی دہائی میں کھلے عام ہوتا آیا تھا اب کیوں نہیں ہوسکتا؟ مگر وہ کہتے تھے کہ عدل کے ایوانوں پر عوامی دباؤ ہے، سو سے زائد ٹی وی سکرینیں اسے گھیرے ہوئے ہیں، نواز شریف نے اپنے جی ٹی روڈ کے دورے سے عوام میں بجلی بھر دی ہے۔ قوم اب زیادہ باشعور ہے اور اب تو ویسے حالات بھی نہیں۔ عرض یہ ہے کہ طاقت کی زبان میں لجاجت نہیں ہوتی، جبر کرنے والا ننگے بدن پر لاٹھی برساتے کسی جھجھک کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ یہ تو دھونس ہے، اور دھونس جب تک کھلے عام نہ ہو تو حسب منشا رعب قائم نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی آئینی ریاست کو خبردار کیا جائے کہ یہ جنگل ہے اور شیر دھاڑ کر اعلان کرتا ہے کہ میں اس کا بادشاہ ہوں، اور لومڑی میری پسندیدہ۔۔۔۔!

شہید رانی کہا کرتی تھیں کہ پاکستان میں دو قوانیں ہیں، ایک سندھی وزیراعظم کے لئے اور ایک پنجابی وزیراعظم کے لئے، ایک پسندیدہ کے لئے اور ایک معتوب کے لئے۔ بی بی آج زندہ ہوتیں تو دیکھتیں کہ معتوب اگر پنجاب سے بھی ہو تو اس کے لئے انصاف کی چھاؤں عنقا ہوجاتی ہے اور سندھ والوں سے اگر مفادات مل جائیں تو ضمانتیں ملنے لگ جاتی ہیں اور جنہیں عشروں سے کرپٹ مشہور کر رکھا ہو وہ خودبخود تمام مقدموں سے بری ہوتے چلے جاتے ہیں۔

2007 میں این آر او آیا، ہمارے ٹی وی چینلز پر بیٹھے خود راستی کے مارے ہوئے اینکرز اسے جنرل مشرف کے جرائم میں سے بڑے جرم کے طور پر گنواتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے لٹیروں کو کھلی چھوٹ دی گئی اور قوم برباد ہوگئی۔ سچ یہ ہے کہ ریاست نے اس آرڈیننس کے ذریعے سیاست میں عدالتوں کی مدد سے مداخلت کا اعتراف جرم کیا تھا۔ جو بات یہ اینکرز نہیں بتاتے وہ یہ ہے کہ قوم کھلے عام این آر اوز سے نہیں بلکہ ان خفیہ این آر اوز سے برباد ہوتی ہے جو ہمارے نصیب میں بچھلے ساٹھ برس سے لکھ دئے گئے ہیں۔ ان خفیہ این آر اوز کے ذریعے ریاستی اشرافیہ ہماری سیاست کی راہیں متعین کرتی آئی ہے۔ معتوب سیاسی کردار ان این آر اوز سے ہمیشہ محروم رہے، اور وہ جو پیا من بھا گئے انہیں سو قتل بھی معاف ہوئے۔ جولائی اور دسمبر 2017 کے دو فیصلوں سے معلوم ہوا کہ خفیہ این آر اوز کا سلسلہ تھما نہیں، سیاست کی راہیں اب بھی عوام کی بجائے کوئی اور ہی متعین کرے گا۔

ہم سے کہا جا رہا ہے کہ لمحہ موجود کے معتوب عوامی طاقت رکھتے ہیں۔ یکطرفہ انصاف کی چکی کی دہائی دے کر عوامی شعور کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ جناب آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ نہ پہلی دفعہ پڑا ہے اور نہ ہی یہ آخری دفعہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2009 سے 2013 تک اسی یک طرفہ انصاف کی دہائی دیتی آئی، کیا فائدہ پالیا؟ اب جو یہ دہائی دیں گے وہ کیا پالیں گے؟

ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاست دان کو اسی ملک میں رہ کر انہی حقائق کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہوتا ہے۔ آج کے معتوب یہ روش دیکھ کر کل پھر پسندیدہ بن جاتے ہیں اور آج کے پسندیدہ معتوب ٹھہرتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ بڑی سرکار کی چاکری جاری رہے۔۔۔ عوام کی حکمرانی کبھی نہ آنے پائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).