اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو


منصور آفاق دورِ حاضر کے مشہور شاعر ہیں۔ بعض افراد انہیں اس دور کا سب سے بڑا اور نمایندہ شاعر بھی قرار دیتے ہیں۔ ہم نے ان لوگوں سے بحث کا دروازہ بند کررکھا ہے کہ لو کے تھپیڑے بھی ساتھ آتے ہیں۔

منصور صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ الحمد کہ ہمارا جو تھوڑا بہت شاعری سے تعلق ہے وہ سوشل میڈیا پر آنے سے پہلے کا ہے۔ فیس بک آنے کے بعد ہم نے سیکڑوں شاعروں کو قریب سے دیکھا۔ شعر سے محبت تو لازوال ہے لیکن شعرا سے کدورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خدا سب کو ہدایت دے۔

منصور آفاق اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ کل ہی ان کا ایک کالم پڑھا تو مارے حیرانی کے کچھ سجھائی نہ دیا۔ بعض دلائل نما پیش کرتے ہوئے انھوں نے احمد فراز کو میر تقی میر سے بڑا شاعر قرار دیدیا ۔ پہلے پہل لگا کہ شاید وہ مذاق کر رہے ہیں لیکن جوں جوں کالم آگے بڑھتا گیا، ان کے دلائل میں شدت اور سنجیدگی آتی گئی۔

نقطہ کمال پر انھوں نے ظفر اقبال کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے میر کے بارے میں ان کے خیالات بھی اپنی تائید میں پیش کیے اور بات ختم کرتے ہوئے میر کو نسل قوم لوط کا آخری شاعر قرار دیا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

منصور آفاق فرماتے ہیں کہ کوئی میرؔ کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں ہے اور جو لوگ انہیں خدائے سخن کہتے ہیں وہ ان کے مخالف کو تو ابلیس ہی سمجھیں گے۔ میر سے اپنی عقیدت کے پیش نظر ہم یہاں منصور آفاق کی تصحیح کرتے ہوئے یہ بتانا چاہیں گے کہ ہم ایسے شخص کو ابلیس نہیں سمجھتے کیونکہ ابلیس بھی الوہی فضا کا اک کردار اور نہایت عالم فرشتہ تھا۔ ہم ایسے شخص کو زیادہ سے زیادہ ظفر اقبال ہی سمجھ سکتے ہیں۔

ان کے کالم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس پر بحث کی جائے یا جواب دیا جائے۔ البتہ ہمیں یہ افسوس ضرور ہوا کہ ہمارے نام نہاد شعرا کا فکری و تنقیدی ذوق کس قدر پست ہے۔ شعرا کی ایسی سنجیدہ نثر پڑھنے کے بعد ان کے نمایشی کلام کی رمزیت بھی ہوا ہو جاتی ہے اور صرف سطحی بناوٹ باقی بچتی ہے۔ ان شعرا کے یہاں شعر کہنا بھی پارٹ ٹائم سرگرمی ہے جس کا ان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا اسپ خیال کاغذی ہے اور مضامین بے جا تصرف جن کی جڑیں حقیقی زندگی میں کہیں بھی نہیں۔

یہ افسوس تب اور بڑھ جاتا ہے جب یہ جدید شعرا ہمارے کلاسیکی آئمہ پر حرف اٹھاتے ہیں جن کے یہاں شعر اور زندگی آپس میں مترادف تھے۔

منصور آفاق کہتے ہیں کہ میرؔ کی کل عظمت بہتر اشعار پر قائم ہے۔ پھر وہ اپنے حافظے کی مدد سے فراز کے یہاں ایسے ڈیڑھ سو اشعار موجود ہونے کا مژدہ سناتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فرماتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ میرؔ کے وہ بہتر اشعار فراز کے ان ڈیڑھ سو اشعار سے معیار میں بلند ہیں تو پھر بھی فرق نہ پڑے گا۔ کیوں نہ پڑے گا اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا البتہ یہ فرمایا کہ میرؔ کے کلام میں کئی کئی صفحات الٹنے کے بعد کوئی کام کا شعر نظر آتا ہے اور باقی بس رطب و یابس ہے۔

احمد فراز کے زندہ شعروں کے علاوہ بھی جو کلام بچتا ہے وہ میر کے مجموعی کلام سے کہیں بہتر ہے۔ ان کے خیال میں میر کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ہی ان پر غالب اور اقبال جتنا کام نہیں کیا گیا۔ ( گویا اقبال اکادمی اور غالب اکادمی صرف ان حضرات کی شعری و ادبی خدمات کے صلے میں بنائی گئی ہیں۔ )
آدھے سے زیادہ کالم ان بہتر اشعار کے گرد گھومتا ہے اور آخر میں جب ان بہتر اشعار کا قریب سے جائزہ لیا جاتا ہے تو منصور آفاق بتاتے ہیں کہ ان میں سے کئی شعر تو میرؔ کے ہیں ہی نہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان بہتر اشعار کی شرط بھی خود منصور آفاق نے قائم کی تھی اور اس پر سارا کالم کھپانے کے بعد وہ ان بہتر سے بھی منہ پھیرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ظفر اقبال کا حوالہ دیا ہے کہ میر کے ہاں کڈھب اور نا ملائم الفاظ کا استعمال زیادہ ہے جس سے سلاست و روانی متاثر ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ملائمت کی یاد میں یہاں ظفر اقبال کے چند اشعار پیش کرتا جاوں:
شعر کی چھابڑی لگاتا ہوں
اک صدا ہر گھڑی لگاتا ہوں
دُھوڑتا ہوں میں زخم پر ہلدی
اور کبھی پھٹکڑی لگاتا ہوں
پانی پینا ہے وقت پر مجھ کو
میں گھڑے پر گھڑی لگاتا ہوں

آخری پیرے میں منصور آفاق کی تنقید پست ترین سطح تک اتر آتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میر کی شاعری کی کینوس کی سطح بہت گری ہوئی ہے اور کریہ المنظر جنسیت سے بھری پڑی ہے۔ میر کی شاعری کا مرکز و محور لڑکا ہے اور جس شاعر کے دیوان میں ایسے اشعار موجود ہوں اسے خدائے سخن کہنا خدا اور سخن دونوں کی توہین ہے۔ ( منصور آفاق اپنے بعض اور کالمز میں علامہ طاہر القادری کی پرجوش وکالت بھی کرتے رہتے ہیں)

میں یہاں جدید فیس بکی شعرا کا بھانڈا نہیں پھوڑنا چاہتا۔ میں ان میں سے اکثر کو قریب سے جانتا ہوں اور ان کی بیمار جنسیت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ان کی سادہ کاغذ اصلاح کے بھی کئی قصے جانتا ہوں۔ شاعرات کی فیس بک وال پر ان کی توصیفی بم باری ہر دوسرے شخص کو معلوم ہے۔ مشاعروں اور ادبی محافل کے بعد کی سرگرمیاں بھی سب جانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کاغذی ٹٹوؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ کلام کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہو۔ ان کی شاعری ان کی بیمار جنس زدگی کی گواہی کہاں سے دے کیوں کہ ان کے یہاں شعر زندگی سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ میں منصور آفاق کو یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ کم از کم شعر شور انگیز کا پہلا باب ہی پڑھ لیں تاکہ انھیں خدائے سخن کے معنی تو معلوم ہوں۔

میں ان سے یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ وہ کون سی مشترک شعریات ہیں جن پر میر اور فراز کا تقابل کیا گیا ہے۔ ان کے کالم میں اس شعریات طرف اشارہ بھی نہیں ملتا بس بہتر تہتر کی رٹ دہرائی گئی ہے۔ یہ بہتر تہتر کا قصہ بھی کلی طور پر من گھڑت ہے۔ فاروقی نے اس حوالے سے کچھ چار ہزار اشعار کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن اتنا وقت کس کے پاس کہ وہ میر کے چھ دیوان پڑھے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ البتہ فراز کا سارا کلام وہ ضرور پڑھیں گے۔

اگرچہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ انھیں فراز کا نام بھی نہ لینا چائیے تھا کہ فراز صاحب وفات پا چکے۔ انھیں افتخار عارف کا نام لینا چائیے تاکہ عارف صاحب ایک جوابی کالم میں منصور آفاق کو ولی دکنی سے بڑا شاعر قرار دے کر احسان کا کچھ پاس رکھ لیتے۔ جدید شعری دبستان سراسر ستایش باہمی کی انجمنیں ہے۔ من تُرا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو۔

اردو کا کون سا شاعر ہے جس نے میر کو نہ سراہا ہو؛ ملاحظہ کیجیے۔

سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تم کو میر سے استاد کی طرح
(سودا)

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
(غالب)

نہ ہوا، پر نہ ہوا، میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
(ذوق)

شعر میرے بھی ہیں پردرد، وَلیکن حسرت
میر کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں
(حسرت)

اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
(ابنِ انشا)

معتقد ہیں اگرچہ غالب کے
میر کو بھی سلام کرتے ہیں
(حزیں جی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).