سانحہ اوجڑی کیمپ کے تناظر میں چند معروضات


افغان جہاد کے زمانہ میں روسی کلاشنکوف کی طرح، امریکی سام میزائل بھی ایک نیا پرڈاکٹ تھا، جیسے اب ڈرون طیارہ ہے۔ ایسے پراڈکٹ پاکستان خریدتا نہیں بلکہ نمونہ کے لئے، بطور ”کمیشن“ رکھ لیا کرتا ہے۔ اسی لئے تو امریکیوں کے پرزور اصرار کے باوجود، جنرل ضیاء نے ان کو افغانیوں سے ڈائریکٹ ڈیل کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ لایا گیا جدید اسلحہ، پہلے اسلام آباد کے مضافات میں واقع “اوجڑی کمپ“میں ڈمپ کا جاتا جہاں سے “بکفایت“ آگے ترسیل ہوا کرتی۔ امریکی سب جانتے تھے مگر مجبور تھے۔ جونہی جنیوا معاہدہ ہوگیا تو انہوں نے گن گن کر بدلا لینے کی ٹھانی۔ پس 10 اپریل 1988ء کو اوجڑی کیمپ کا اسلحہ خانہ پھٹ گیا۔ میزائل دور دور جاگرے حتی کہ وفاقی وزیر خاقان عباسی( موجودہ وزیر اعظم کے والد) مری سے آتے ہوئے، کار پہ میزائل لگنے سے جاں بحق ہوگئے )۔ اس سانحہ کے بارے وزیر اعظم جونیجو نے(جو کہ وزیر داخلہ بھی خود تھے)، ایک ان کوائری کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا، جس پر جنرل ضیاء نے سیاسی حکومت برطرف کردی۔ ٹی وی پر جنرل ضیاء نے اس بات پہ باقاعدہ رومال نکال کراپنے آنسو پونچھے کہ سیاسی حکومت، کرپٹ اوراسلام بیزارہے۔ (ماضی سے لوگ نہیں سیکھتے ورنہ یوسف رضا گیلانی، ایبٹ آباد بارے اور نوازشریف، کارگل بارے بات نہ کرتے)۔

اوجڑی کیمپ سانحہ کی وجہ سے پنڈی اسلام آباد مستقل خطرہ میں تھے۔ ابھی کیمپ میں ان پھٹے میزائل موجود تھے جو ذرا سی چھیڑ چھاڑ سے تباہی مچا سکتے تھےٓامریکہ چونکہ ہر ”آڑے وقت کا ساتھی“ ہے تو اوجڑی کیمپ کی صفائی کے لئے فوراً تکینکی امداد کی آفر کردی۔ اس خداواسطے کی مفت امداد میں صرف ضروری سامان کے اخراجات طلب کیے گئےتھے(مثلاً 3 سوٹکینشنز کے لئے مخصوص لباس تقریباً 60 ہزار ڈالر فی کس)۔

اس زمانے میں ملٹری انجینرئنگ کے ڈائرکٹر، میجر جنرل جاوید ناصر صاحب تھے جو نئے نئے تبلیغی جماعت میں شامل ہوکر اپنی پرانی زندگی سے 180 زاویہ پر مڑچکے تھے۔ انہوں نے یہ کام خود کرنے کی آفر کی لیکن جنرل ضیاء کو مالی سے زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ تھا تو منع کردیا۔ مگرجب امریکی پلان پیش ہوا جس میں، حفظ ماتقدم کے طور پر، پوری پنڈی اور اسلام آباد کی آبادی کو 6 ماہ کے لئے عارضی طور پرکہیں اورشفٹ کرنے کی تجویز بھی تھی تو دوبارہ جنرل جاوید ناصر کو بلایا اور یہ کام ان کے ذمہ لگا دیا۔

خاکسارنےجنرل جاوید ناصر سے خود یہ احوال سنا ہواہےکہ انہوں نے اپنے جوانوں کو جمع کرکے ایک پراثر خطاب کیا، پہلے ان پہ واضح کیا کہ کسقدر خطرناک کام کے لئے میدان میں اترنا ہے؟ اس کے بعد شہادت کے فضائل سنائے اور پھر یہ بھی کہا کہ پہلے وہ خود آگے جائیں گے مگرسٹاف پرکوئی مجبوری نہیں بلکہ جوبھی ساتھ دینا چاہے۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ سبھی لوگ بخوشی تیار ہوگئے۔ انہوں نے پلان پیش کیا کہ ہر آدمی صبح نمازجماعت سے پڑھے گا اوروزہ رکھ کر آئے گا۔ جب انہوں نے کام شروع کیا تو امریکی ماہرین بھی دیکھنے آئے ہوئے تھے اوروہ اس پہ بڑا چیں بجبیں ہوئےجب جنرل صاحب نےسلگتے میدان میں پانی چھوڑنے کا پروگرام بنایا۔ خدا کی قدرت کہ 15 دن میں ہی کام مکمل ہوگیا۔ (دوتین شہادتیں ہوئیں)۔

نوازشریف نے انہی جنرل صاحب کو اپنے دورحکومت میں آئی ایس آئی کا ڈائرکتڑ بنادیا تھا جو انجنئرنگ کور سے پہلا (اور شاید) آخری بندہ لیا گیاتھا۔ خدا جنرل صاحب کوعافیت سے رکھے، آج کل اکثر رائے ونڈ مرکز میں پائے جاتے ہیں۔

اوپر جو کچھ میں نے بیان کیا ہے، اب اس تناظر میں پانچ معروضات پییش کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات:

اوجڑی کیمپ بحالی کا کام، اسپیشلسٹ حضرات سے ہی کرانا چاہیے تھے۔ جنرل جاویدناصر نے جو کام کر دکھایا، وہ اپنے ایمان کی بنیاد پہ کیا اوراضطراری حالت میں ایمان کی بنیاد پہ غیبی امداد میسر ہوجایا کرتی ہے(جو ایک استثنائی صورتحال ہے)۔ ایمان بالغیب بڑی چیز ہے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے یقین کے بقدریہ غیبی کمک ملتی رہتی ہے۔ میں مسلمان ہوں تو ظاہر ہے کہ میرا اسلامی اعمال پہ یقین ہے۔ مگران اعمال میں (جیسے نماز، روزہ وغیرہ) بذات خود کچھ طاقت نہیں بلکہ یہ بندے کی اندرونی کفیت پہ منحصر ہوتی ہے۔ اندر کا ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ جنرل صاحب، اس وقت ایمان کی جس سطح پر تھے، بعد میں شاید اس لیول پہ نہ ہوں۔ پس کسی کام کے لئے، فقط مذہبی ہونا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ”لکل فن الرجال“ اور اسی کو فالو کرنا چاہیے۔

دوسری بات:

نواز شریف صاحب نے جنرل صاحب کو ڈائرکٹر آئی ایس آئی کیوں بنایا جب کہ وہ اس فیلڈ کےہی نہ تھے؟ بظاہراسکی وجہ جنرل صاحب کی دین داری اور تقوی ہے۔

دیکھئے، تقوی اوردین داری، کسی منصب کے لئے میرٹ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک اضاٖفی خوبی ہے۔ کچھ عرصہ قبل، عمران خان نے(دھرنے کے دوران) ایک قادیانی ماہر معیشت کووزیر بنانے کا اعلان کیا تو مولوی، ان کے پیچھے پڑ گئے اورعمران خان، حسب عادت، دباؤ میں آکرکنّی مارنے لگے۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ کسی بھی نوکری کا بھلا کسی عقیدے سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو خدمات اورعوضانہ کا معاملہ ہے، اس میں عقیدہ کہاں سے آگیا؟ دین داری تو رہی ایک طرف، اس میں مسلم و غیرمسلم کی بھی شرط نہیں۔ چاہے کوئی مسلم، کسی غیرمسلم کی نوکری کرلے(حضرت علی کا یہودی سے اجرت لینا) یا غیرمسلم، کسی مسلم کی نوکری کرلے(حضرت عمر کا لینڈ ریکارڈ کے لئے، ایک قبطی کی تعیناتی)۔

پاکستان میں ختم نبوت مشن کا عملی سرپرست، مولانا فضل الرحمان ہے۔ غالباً مولانا کو 2006ء میں دل کی تکلیف ہوئی۔ یہ واقعہ مولانا ہی کے الفاظ میں نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں(اہل دانش توجہ فرمائیں)۔

فرمایا کہ میں عبدالخیل میں تھا جب سینے میں تکلیف محسوس ہوئی اور مقامی ڈاکٹر نے ہارٹ اٹیک کا اندیشہ ظاہر کیا۔ فوراً یہ خبرآؤٹ ہوگئی اور اکرم درانی (وزیر اعلی پختونخواہ) نے ہیلی کاپٹر بھیج دیا۔ اس دوران وزیر اعلی پنجاب، پرویز الہی کا فون آگیا کہ میرا ایک دوست جو کہ برٹش پاکستانی ہارٹ سپیشلسٹ ہے، آج لندن واپس جارہا ہے لیکن میں نے اس کو جہاز سے اتار لیا ہے۔ ہم نے سب انتظامات کرلئے ہیں اور آپ کی طرف اپنا ہیلی کاپٹر بھیج رہا ہوں۔ مولانا کہتے ہیں کہ تشخیص میں ایک شریان بلاک تھی، انجیوگرافی ہوئی، بہت قابل ڈاکٹر تھا۔ ایک لمحہ کے لئے ناقابل بیان تکلیف ہوئی مگرشریان کھل گئی۔ یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ کم بخت قادیانی تھا۔

اب ذرا غور فرمایئے کہ قادیانی ڈاکٹر کے سامنے، اپنا سب سے بڑا دشمن پڑا ہے۔ اگروہ خدا نخواستہ مولانا کو شہید کردیتا تو تین وجہ سے اس پہ کیس بھی نہ دائر کیا جاسکتا۔ ایک یہ کہ مریض نے ہر قسم کے نتائج کی ذمہ داری خود قبول کی ہوئی ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ڈاکٹر، برٹش سٹیزن تھا اور اس پہ کیس چلانا آسان نہ ہوتا۔ تیسرے اگر اس کو ایشو بنایا جاتا تو قادیانی والی بات کھل جاتی اور پورے ملک کے مولوی اودھم مچاتے کہ آپ ایک قادیانی کے پاس کیوں گئے تھے؟ آپ کی ساری سیاست ہی ختم ہوجاتی۔

مگر اس ڈاکٹر نے اپنے مریض کو عقیدہ کی بنا پر نہیں دیکھا۔ پس خدا کے لئے اپنے ذہن کو وسعت دیجئے۔ تنگ نظر مولوی کے پاس بیٹھیں تو وہ آپ کو یہ تک بتائے گا کہ ”قادیانی، مسلمانوں کے اتنے دشمن نہیں ہیں جتنا، اہل تشیع، اہلسنت کے دشمن ہیں“۔ ایم ایم اے دور حکومت میں، مولانا فضل الرحمان نے اہل تشیع کے علامہ رمضان توقیر کو مشیر بدرجہ وزیر بنادیا تھا۔ بلکہ سپاہ صحابہ کے سرپرست، خلیفہ عبدالقیوم صاحب جب ایم پی اے تھے تو اپنے شہر( ڈیرہ اسماعیل خان) میں سید فیروز شاہ (اہل تشیع) کو ای ڈی او لگوا رکھا تھا اوراحباب کو معلوم ہے کہ دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ذی فہم عالم دین، عقیدے کی بنیاد پرلوگوں کے روزگار بارے متعصب ہوسکتا ہے۔

تیسری بات:

نواز شریف صاحب ایک خالص بزنس مین ہیں، کتاب اور مطالعے سے گریزاں اور روحانی شخصیات سے متاثر۔ میرا عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر کاروباری لوگ، مکہ و مدینہ جاکر روتے دھوتے ہیں، فقیروں بابوں کی عاجزانہ خدمت کرتے ہیں تاہم، کاروبار میں ڈنڈی مارنے سے نہیں چوکتے۔ نواز شریف صاحب، رائے ونڈ مرکز اور دیگر بزرگان کے معتقد ہیں(بلکہ انہی جنرل جاوید ناصر کے ہمراہ، تبلیغ میں سہ روزہ بھی لگایا ہے)۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ٹھوس مذہبی ذہن کے کاروباری شخص کو ملکی قیادت حوالے نہیں کرنا چاہیے۔ خاکسار کو بھی علمائے دیوبند سے بہت عقیدت ہے مگر بھائی، ”شخصیت پسندی“ اور“شخصیت پرستی“ میں بڑا فرق ہوا کرتا ہے۔ نواز شریف توطاہرالقادری کو بھی امام مہدی سمجھ بیٹھے تھے۔

چوتھی بات:

جنرل جاوید ناصر، آئی ایس آئی کے لئے بالکل موزوں نہیں تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی اور ڈائرکٹر نے کوئی خاص کارکردگی دکھائی ہے۔ مگر ایسی حساس پوسٹ کے لئے کم از کم غیرجذباتیت توشرط اول ہے (اور مذہبی آدمی، غیرجذباتی ہونہیں سکتا)۔ جنرل صاحب ٹھہرے کھلے ڈلے آدمی۔ ملک کے لئے ہی نہیں بلکہ خود اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کیں (نہ صرف ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ تک بلکہ بعد از ملازمت بھی)۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کا نام، آسٹریلیا جانے والی تبلیغی جماعت میں درج تھا۔ اس دوران انہوں نے وہ بوسنیا والا متنازعہ انٹرویو دے مارا جس پہ عالمی ایجنیسوں نے ان سے تفتیش کرنا چاہی۔ حکومت پاکستان نے تو منع کردیا لیکن ان کو بزرگوں نے ان کو جماعت سے روک لیا کیوںکہ آسٹریلیئن ایرپورٹ پر ان کا انتظار ہورہا تھا۔

اسی بات کو بڑھاتے ہوئے میں یہ بھی عرض کروں گا کہ حساس حکومتی ذمہ داران کو تبلیغی جماعت میں یا کسی ایسی جگہ جہاں عوام میں گھلنا ملنا پڑتا ہو، وہاں جانے سے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

پانچویں بات:

نواز شریف صاحب کو جنرل جاوید ناصر پسند آئے تو چیف آف آرمی سٹاف، جنرل جنجوعہ کے روکنے کے باوجود، ان کو زبردستی ڈی جی آئی ایس آئی لگوا دیا۔ آج کل نواز شریف کہتے ہیں کہ فوج کو سول معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے مگر جب نواز شریف کے قدم مضبوط ہوتے ہیں تو فوراً ہی مغل بادشاہ بننے کی کوشش کرتے ہیں(بلکہ پرویز مشرف کے مارشل لاء سے قبل تو درون خانہ وہ امیرالمومنین بننے کی ترمیم کرنے کی کوشش میں تھے)۔ بطور وزیر اعظم، آپ سپریم منتظم ہولیکن آرمی کی ایک اپنی لائن آف پروموشن ہے جس کونہیں چھیڑنا چاہیے۔ جنرل وحید کاکڑ، جس نے جاوید ناصر کو ہٹایا، تو کیا وہ اسلام دشمن تھا؟ جنرل کاکڑ کے بیٹے(سعد) میرے کالج فیلو ہیں(کوہاٹین) اور تبلیغی جماعت کے ساتھ چار ماہ لگائے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فوج، کو اپنے معاملات اورحدود کا خاص علم ہوتا ہے جو بوجوہ، سول انتظامیہ کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا۔ فوج نے سب سے زیادہ نواز شریف صاحب کو ہی موقع اورعزت دی ہے لیکن نواز شریف صاحب کے ساتھ شاید ہر کسی کو زیرنگیں رکھنے کا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ واللہ اعلم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).