محاصرے کا روزنامچہ اور تیلیوں سے چھنتا ہوا نور


حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب’ محاصرے کا روزنامچہ‘ وجاہت مسعود کے13۔ 2012  کے دوران لکھے گئے کالموں  کا انتخاب ہے ۔ ان کالموں میں مصنف نےملک میں  اس معاشرتی اور سیاسی ماحول کو بیان کیا ہے جس میں  فکری اور سماجی آزادی کے  طلبگار کسی بھی بھی فرد یا گروہ  کے پاس خود کو محاصرے میں گھرا  ہوا سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔

 محاصرے  کا  آغاز 1947 کی تقسیم ہند  کے  وقت سے ہؤا۔نئی ر یاست کے نظریاتی معماروں نے نوزائندہ مملکت   کو   مشرف بہ دو قو می نظریہ کرنے کے بعد ، خود کو دیدہ اور نادیدہ دشمنوں سے محفوظ کرنے کے لئے،ہر اس فرد یا گروہ کو راندۂدرگاہ قرار دے  دیا جس نے ان نئی تعمیر کردہ نظریاتی سرحدوں سے پار دیکھنے کی کوشش کی۔ مقتدر گروہوں  کو اندازہ تھا کہ  کہ وہ خود کسی نئے اور حیات آفریں خیال کو متعارف کروانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔اس لئے انہوں نے  اپنے فکری بانجھ پن کے دفاع کا ایک ہی طریقہ دریافت کیا  کہ وہ تمام عناصر جو اس ریاست کے شہریوں کی  فکری نشوونما میں بنیا دی کردار ادا کرسکتے ہوں انہیں خوف اور دہشت کے حصار میں قید کر دیا جائے۔ زودرنج امہ نے اپنے زوال کے بعد ایک نئے زمانے سے نبرد آزما ہونے کی واحد ترکیب یہ سوچی کہ اپنے ماضی کو ڈھال بنایا جائے۔ اور اس تصور کو پروان چڑھایا جائے کہ  مغرب   سمیت  تمام دنیا کو   انہیں  تباہ  و برباد کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں  ہے۔     یوں    ہمہ وقت اپنے خیالی دشمنوں سے بر سر پیکار،  خود رحمی کے شکار  اس گروہ  نے،  اپنے خوف سے نبٹنے کے لئے، ہر اس سوچ اور فکر پر قدغن لگانی شروع کر دی جس نے فرد کی آزادی، سائنسی اور دیگر علوم کی ترویج، خرد افروزی، حریت فکر اور جمہوریت کی بات کی۔اپنی نظریاتی صف بندی کرتے ہوئے، انہوں نے ہراس  آواز کو  خاموش کرنے کی کوشش کی  جو ان کے مسلط کردہ نظریات سے انحراف کرے۔اس حکمت عملی کا اطلاقی پہلو اپنی فکری ناتوانی کو  مسلح پشت پناہی سے طاقت میں بدلنا تھا۔  یوں    ریاست کے معاشرتی اور سیا سی تارروپود میں ایسی عسکری  گرہیں لگائی گئیں جنہیں سادہ اور امن پسند خواب گیروں کے لئے  کھولنا ہمیشہ مشکل رہا۔یہ حکمت عملے کارگر رہی، اور گذشتہ ستر سال سے، ریاست کا عمومی  چلن یہی رہا ہے۔

محاصرے کے روز نامچے میں اس تاریخ کا بیان ہے کہ کس طرح  نظریاتی  تقدیس کے ہتھیا ر سے ، ایک مخصوص بیانئے سے اختلاف کرنے کو غداری قرار دیا گیا۔اور  جس  گروہ نے اپنی شناخت پر اصرار کیا اسےغدار اور فسادی ٹھہرایا گیا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ  پاکستان میں  سیاسی  استبداد اور فکری تشدد ظلِ الٰہی جنرل ضیاٴالحق کے عہد مبارک میں   اپنے عروج پر پہنچا۔ تاہم  جبر کے اس  طویل مو سم کے باوجود لوگوں کے دلوں میں امید کی روشنی کم نہیں ہوئی تھی۔   اسی 80 ء کی دہائی  میں، جوکتاب کےمصنف وجاہت مسعود کی طالبعلمی کا زمانہ تھا، مزا حمت کے جذبے کی آب و تاب ماند نہیں پڑی   تھی۔ ناصر کاظمی  کی شاعری کی نغمگی اس کے جانے کے بعد بھی  ساحلوں پہ گیت والوں کو لبھاتی  تھی۔ منیر نیازی کی  شاعرانہ جمالیات ا س ملک میں آسیب کے مسلسل سائے پر معترض تھی۔ نور کے منکر  حبیب جالب عوامی جلسوں کی جان ہوتے تھے۔  لوگ فیض کی تقلید میں درد بیچنے اور گیت گانے کے خوش وقت کاروبار کو افضل گردانتے تھے۔ اور نوجوان ’نظر میں رات لئے ، دل میں آفتاب لئے‘، اپنے گرد محاصرے  کے اس پار  اترنے کی مہم جوئیوں میں مگن رہتے تھے۔امید ابھی زندہ تھی، اور لوگ اپنے قفس سے پرے کسی رو شنی کے  لئے درِر  دلکشارکھتےہوئے ،اس بات کا اصرار کرتے کہ ،

 کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا، کچھ حسرت پرواز کی باتیں کریں!

 اس دور کے طالبعلم وجاہت مسعود کےلئے  بھی اس چھنتے ہوئے نور سے آنکھ ہٹانا ممکن نہ تھا۔   ’ محاصرے کا روزنامچہ‘ ، حسرت پرواز لئے ‘قفس کی  تیلیوں سے پرے چھنتے ہوئے نور کے متلاشیوں کی داستان  ہے۔

قیام پاکستان کے اولیں دنوں میں ، جب ابھی علم و ہنر کی اس قدر بے قدری نہیں ہوئی تھی کہ عزیز حامد مدنی کو کہنا پڑا  کہ ُ حرم میں آئے تو کسب و کمال سے بھی گئے‘، اردو زبان میں ایسے کالم نگار اردو صحافت میں نمایاں تھے جو فکری ،علمی اور ادبی اعتبار سے بے مثال تھے۔ جیسے چراغ حسن حسرت،  جو معاصر گردوپیش سے با خبر ہونے کے ساتھ ساتھ روایت سےگہری شناسائی رکھتے ہوئے ،اپنے خیالات ایک شگفتہ نثر میں پرو کر قاری کے سامنے پیش کرتے تھے۔  مگر آہستہ آہستہ یہ چلن موقوف ہوا۔ علمی ، سنجیدہ اور تجزیاتی کالموں کی بجائے اردو زبان میں لفاظی سے بھرپور اور سطحی تحریریں اپنی جگہ بنانے لگیں۔ تاہم گذشتہ  برسوں میں نوجوان اور تجربہ کار لکھاریوں کی ایک ملی جلی کھیپ نے دوبارہ اردو نثر اور کالم نگاری کو ایک نئی آبرو بخشی ہے،اور ٹھوس مواداور تجزئیے  پر مبنی تحریر کی روایت کو مضبوط کیا ہے۔  وجاہت مسعود نہ صرف ان لکھاریوں میں ایک نمایا ں نام ہے بلکہ اس نے ’ہم سب‘ کی شکل میں ان لکھاریوں کو ایک معیاری   پلیٹ فارم بھی فراہم کیا ہے۔

وجاہت مسعود کے کالم شاعری، تحقیق ، تجزیے، محاورے، رمز  اور تمثیل کے تال میل کی روانی  سے اپنے نکتہ نظر کو آگے بڑھاتے ہیں۔کسی مصرعے یا رمز کو کسی سیاسی بحث میں ایک دلیل کے طور پر سمونا ایک کٹھن کام ہے۔تاہم  ان کالموں کو پڑھتے ہوئے بلاشبہ اس مہارت کا احساس ہوتا ہے جس سے کام لیتے ہوئے، کالم نگار نے شعر اور استعارے  کو اپنی دلیل کے اثبات کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اپنی تحریر کی نکتہ آفرینی اور نثری جمالیات کو نہائت عمدگی سے آپس میں پرویا ہے۔

 وجاہت  مسعود کے بیشتر  کالم ایک شعری فضا لئے ہونے کے باوجود معروضی تجزیے کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوتے۔ مگر کہیں کہیں’ دنیا کیسی ہونی چاہیئے ‘ کے بارے میں ،مصنف کی اپنی آرزوئیں کسی حد تک معروضی نکتہ نظر سے احتراز کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک مثال دیکھئے۔قومی ریاست کے معماروں نے دو قومی

    نظرئیےکی  تلوار کو جس طرح مسلسل  لہرایا، اس کےجواب میں مصنف نے بھی سند کے طور پر  جناح کی ایک تقریر کوبالاستقرار  اپنا حوالہ بنایا۔ ریاست اور مذہب کے درمیان تفریق کی توثیق کے لئےمصنف نے بارہا جناح صاحب کی گیارہ اگست 1947کی اس  تقریر کو حتمی استدلال کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے مطابق پاکستان میں ہر عقیدےکو مکمل آزادی حاصل ہو گی اور ہر شہری کے ساتھ برابر کے شہری کا برتاؤ ہو گا۔ ممکن  ہے مصنف کو اس تقریر سے  ایسا ہی گماں گذرتا ہو  ۔ ہو سکتا ہے یہ جناح صاحب کی ذاتی خواہش ہو۔ تاہم بہت سے لوگوں کے نزد یک، یہ دلیل مزید تجزئیے کا تقا ضا کرتی ہے۔ ان کے مطابق  کئی برسوں پر محیط مذہبی بنیادوں پر ایک نئے ملک کے حصول کی تحریک  کا اثر محض ایک تقریر سے زائل نہیں ہو سکتا۔ بالکل ویسے  ہی، جیسے فیض صاحب  سے، ’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘،سن کر بنگلہ دیش کے ایک صڈر جسٹس عبدالستار نے فیض صاحب سے کہا تھا کہ’ خون کے دھبےمحض بر ساتوں سے نہیں دھلتے!‘۔

’ موج چلے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے‘کو سن کر پروان چڑھنے والی  نسل کےلکھاریوں کے  لئے امید کےرنگ کبھی  بھی  شوخ اور روشن نہیں رہے۔ ملکی حالات پر نظر رکھنے والے حقیقت پسند تجزیہ کاروں  کا خیال ہے کہ ابھی بھی کسی مثبت  کیفیتی تبدیلی کی خواہش کرنا بیکار ہے۔ ابھی  طاقت کا توازن غیر متناسب ہی رہے گا، اور انہی قوتوں کے زیر اثر رہے گا جنہوں نے ایک طویل عرصے سے ملک  کے سیاسی اور فکری  افکار پر بیانیئے کے آخری مورچوں کو سنبھالا ہؤا ہے۔

ترک ناول نگار،اورحان پامک نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’ اگر آپ کے خوابوں میں بار بار کسی باغ  کا تصور  ابھرتاہے۔  ایک ایسا  باغ جو آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھا ہو، شاید اس لئے کہ وہ باغ کسی بہت اونچی دیوار کے دوسری جانب واقع ہے، تو اس ان دیکھے باغ کو تصور میں لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسی کہانیاں سنائی جائیں جو آپ میں امید اور خدشات کے احساس کو جگاتی رہیں‘۔

  محاصرے کا روزنامچہ لکھنے والوں کی کہانیوں کے تمام منظر، انہی امیدوں اور خدشات کے باہمی مکالمے سے عبارت ہیں۔

 شاید تمہیں نصیب ہو اے کشتگان شب

روئے افق پہ صبح کے آثار دیکھنا!

ارشد وحید اور وجاہت مسعود۔۔۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).