اہلِ دانش کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟


 

اس ملک کے سیاسی و سماجی حالات کے پسمنظر میں اگر غور کیا جائے تو اہلِ دانش کے لئے یہ اس دور کا اہم ترین سوال ہے۔ اس موضوع پر بیسویں اور اکیسویں صدی کے معروف عالمی دانشور نوم چومسکی کے خیالات انتہائی اہم اور ہیں۔ اور اگر چومسکی سے بہت قبل یعنی انیسویں اور بیسویں صدی سے اس موضوع پر شایع ہونے والے مواد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں اقوام کی تاریخ کے مختلف مراحل پر اہلِ دانش کے جانبدارانہ اور غیرجانبدارانہ کرداروں کے حوالے سے بہت سارے نقطہ نظر اور رجحانات سامنے  آئے ہیں۔

1889ء میں ڈریفیو سارڈس نے دانشوروں کی ایک جماعت (بشمول ایمائیل زولا کے) ایک خط سے متاثر ہوکر “اہلِ دانش کا منشور” تحریر کیا تھا، جس کا نچوڑ یہ تھا کہ دانشور انصاف کے محافظ ہوں اور تشدد و جبر کا جرات و ایمانداری سے مقابلہ کریں۔ اس منشور پر چند فریقین، بشمول مخالف دانشوروں کی ایک لابی نے سخت تنقید بھی کی تھی، جن کہنا یہ تھا کہ وہ “سپر مین” بنے ہوئے نام نہاد سائنسدان و پروفیسر کون ہوتے ہیں جو فوجی جنرلوں کو احمق، معاشرتی اداروں کو غیرفعال اور روایات اور رسموں کو غیرصحتمند قراردیتے ہیں؟

1914ء میں جنگِ عظیمِ اول میں جرمن دانشوروں کی ایک بڑی جماعت نے جرمن فوج کے جنگی اقدامات کو سراہتے ہوئے جرمنی کی جارحیت کو درست قرار دینے کے جواز پر مبنی ایک قرارداد دستخط کے ساتھ پیش کی تھی۔ اس دستاویز کو “ترانوے (93) افراد کا دستور” کہا جاتا ہے۔ اس میں سائنسدان، دانشور اور مختلف شعبہِ فنون سے وابستہ مفکرین شامل تھے۔

علاوہ ازیں یہاں گائیونی جینٹائیل کی تصنیف “فسطائی دانشوروں کا منشور” کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جو کہ انہوں نے اٹلی میں مسولنی کے فاشزم کی حمایت میں اس جواز کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ ثقافت اور سیاست میں ہم آہنگی اور میلاپ ہے۔ گو کہ یہ بات درست تھی مگر فاشزم کی حمایت سے وابستہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دستاویز پر منعقد کی گئی کانفرنس میں شریک 400 دانشوروں میں سے صرف 250 نے دستخط کیے تھے۔ اس منشور کے رد میں اٹلی کے خیال پسند مفکر بینیڈیکٹو کِروچے نے “فاشزم-مخالف دانشوروں کا منشور” کے عنوان سے دستاویز تیار کیا تھا۔ 1933ء میں جرمنی کے وجودی فلسفی مارٹِن ہائیڈیگر  نے انتہائی بہترین خیال پیش کیا کہ، “سچ وہ ہے جو جب لوگوں پر آشکار ہو تو انہیں علم اور عمل میں پُریقین، واضح اور مضبوط بنا دے۔” مگر افسوس کہ یہ خوبصورت جملے ہائیڈیگر نے ہٹلر کی حمایت میں کہے تھے! لہٰذا تاریخ میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی بھی دانشور کے پاس واضح نقطہ نظر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس نقطہ نظر کو درست سِمت میں استعمال بھی کرے۔

چومسکی کے نقطہ نظر کے مطابق امریکی خونی سیاسی حکمت عملیوں اور ان کے نتائج میں دنیا کے عوام کے ہونے والے قتل عام کے ذمہ دار امریکی عوام اور دانشور بھی ہیں۔ اس لیے کہ انہیں اظہار کی آزادی، سیاسی آزادی اور  معلومات پر بھرپور رسائی حاصل ہے۔ وہ امریکہ کے اندر اس آزادی کا اظہار دیگر کئی ممالک کی بنسبت زیادہ بہتر اور آسانی سے کر سکتے تھے مگر ان میں سے اکثریت دانشوارانہ پستی کا شکار ہیں۔

چومسکی مصنفوں کے پست حالی کے حوالے سے صدر کینیڈی کے دور کی مثال دیتے ہیں، جب کاسترو کا تختہ الٹنے کے لیے بذریعہ “بے آف پِگ” کیوبا میں داخل ہونے والے سی آئی اے کے تیار کردہ کیوبن ایجنٹ پکڑے گئے تو امریکہ خواہ پوری دنیا میں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس وقت چے گویرا اور کاسترو نے بڑی ہوشیاری ور سیاسی تدبر کے ساتھ بری طرح پھنسے ہوئے امریکہ سے اپنی من پسند سودے بازی کرکے معاملہ حل کیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ صدر کینیڈی چرچ میں گھٹنے ٹیک کر رو پڑے تھے۔ امریکی ریاست کے دباؤ پر امریکی دانشوروں میں سے آرتھر شلیسنگر نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے حقائق بیان کرنے کے بجائے امریکی حکومت کا من گھڑت بیان دے کر معاشرے میں مخصوص موقف سازی میں کردار ادا کیا تھا۔ کئی برس کے بعد انہوں نے اس جھوٹ کو تسلیم تو کیا مگر بغیر کسی پچھتاوے کے۔ اُلٹا انہیں افسوس یہ تھا کہ وہ حکمت عملی درست نہ ہونے کے باعث ناکام ثابت ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ خود نیویارک ٹائمز نے بھی امریکی حکومت کی حمایت میں اس واقعہ کے بارے میں بہت ساری غلط رپورٹیں شایع کرکے عوام کو گمراہ کرکے رکھا ہوا تھا۔

اب بھی (بالخصوص صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد) امریکی حکومت کے پروپیگنڈہ کے آلہ کار کی حقیقت کو سمجھنا امریکی عوام کے بس کی بات نہیں۔ عوام کا بہت قلیل حصہ ان واقعات پر معقول تحقیق کرتا ہے؟ ان پیچیدہ معاملات کو بغیر تحقیق کے سمجھنا مشکل ہے اور باضمیر دانشور اور چومسکی جیسے مایہ ناز مصنفین اس کی مثال ہیں، جو عوام کے شعور کو نئی سِمت کی جانب راغب کرکے حقیقی موقف سازی کرتے رہے ہیں، لیکن وہ بھی بڑے پیمانے پر پروپینگڈہ کے آلہ کار  کو غلط ثابت کرنے اور عوام کی اکثریت کو قائل کرنے میں اُس حد تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

اہلِ دانش کے مکروہانہ کردار کی مثالیں بہت ہی سنگین ہیں۔ ویٹنامیوں کو بم سے اُڑانے کو جائز قرار دینے کے بارے میں شِلیسنگر نے کہا، “ویٹنامیوں کو جنگ جیتنے کا گمان تھا، لہٰذا وہ مذاکرات کے لیے راضی ہی نہیں ہوتے۔” یعنی انہیں مارنا ہی واحد حل تھا! یا پھر یہ کہ “شمالی ویتنام میں بم گرانا اس لیے ٹھیک تھا کہ اب ہنوئی سے مذاکرات مساوی سودا بازی کے تحت ہونگے۔” یہ کس قسم کی دانش تھی کہ اہلِ قلم دانشمند کم رہزن زیادہ لگتے تھے؟ کہ دانش اور رہزنی میں ویسے کوئی سیدھی اور براہ راست نِسبت تو نہیں؟

کسی بھی قوم کے باشعور عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ دانشوروں کے ان دونوں گروہوں میں سے قوم کی حقیقی نمائندگی کرنے والے دانشور کونہیں؟ کیا وہ 93 ہٹلر کے حامی جرمن دانشور درست تھے جن کے بدنیت دعوی کے مطابق ان کی جرمن جنگ کی حمایت اصل میں بِیتھووِن، گوئٹے اور کانٹ کے فلسفہ کی روشنی میں تھی؟ یا پھر انہیں رد کرنے والے اصل دانشور ہیں؟

حقیقت میں ملک کے سیاسی و اقتصادی حالات معاشرتی شعور کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان ہی حالات کے مطابق عوام مثبت اور منفی طور پر جانبدار ہوتے ہیں۔ مثلاَ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دؤر میں پروان چڑھنے والے ذہنوں کی مخصوص نفسیات بنی، یا امریکا کی ویتنام اور کوریا  پر جارحیتوں میں ان کے دانشوروں کا مخصوص کردار متعین ہوا، یا جیسے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی نے گذشتہ دو دہائیوں میں معاشرے کے سوچنے والے ذہنوں کو نئی سمت دی ہے۔ اجتماعی سماج  کو ایک نیا رجحان دیا ہے، جو لازمی نہیں ہے کہ اپنے جوہر میں انسان دوست یا سماج دوست بھی ہو۔

جب عوامی شعورسازی ملکی سیاست اور سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے تب وہ سماجی اداروں کا مزاج جابرانہ اور ادارتی کارندوں کی اکثریت کو جارح، طاقتور اور ظالم بنا دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جب انسان دشمن ملکی سیاست عوام کو اپنے تنگ نظر نقطہ نظر، منشور اور عمل سے مخصوص سیاسی بہاؤ میں لے جاتی ہے اس وقت ملک کے باشعور دانشور اپنی پُرزور تحریروں کے ذریعے عوام کو کسی اور بہاؤ میں لے جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حقیقی دانش اہلِ قلم اور اہلِ علم کو سچ اور حق کی طرف جانبدار بناتی ہے اور حق پر مبنی رائے کا سرعام اظہار کرنے کی قوت بھی بخشتی ہے۔ سچے دانشور کا کام بھی عوامی رائے کو حق کی طرف جانبدار بنانا ہے۔

ڈاکٹر سحر گل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سحر گل

سحر گل بینظیر بھٹو چیئر کراچی یونیورسٹی کی ڈائیریکٹر، محقق، کالم نگار، ناول نگار و افسانہ نگار اور اردو کی شاعرہ ہیں.

sahar-gul has 5 posts and counting.See all posts by sahar-gul