سقوط ڈھاکہ اور دوہرا معیار


معلوم ہے زندگی تسلسل کا نام ہے، استقامت اور مستقل پن کا نام ہے، ہر لمحہ سانس لینا اور روزانہ وقت پر کھانا پینا اسی تسلسل کی علامت ہیں کہ جو چیز ناگزیر ہو تو اس کے وقوع پذیر ہونے میں غیر معمولی توقف اس کا خاتمہ کر دیتا ہے، ہم لوگ دراصل ایونٹس کے عادی ہو گئے ہیں، ہم نے بنایا ہوا ہے ہنسنے، رونے، شادیانے بجانے اور نوحہ خوانی کرنے کا شیڈول، ہم نے دن مخصوص کر دیے ہیں ہر کام کے لیے اور یہی جدید طرز زندگی ہمارے رنج و الم کو ختم کیا کم کرنے میں بھی ناکام رہا ہے

کہاں سن 71 کے بعد روز ہر ہر لمحہ ہم نے رونا تھا کہ جوان ہوتی نسلیں ہر وقت ہمیں حالت غم میں دیکھ کر عبرت پکڑ لیں، کہاں ہم نے ایک دن مخصوص کر دیا، کہاں ہم نے پہلے ناحق قتل پر مرثیہ خوانی اور احتجاج سے باز نہیں آنا تھا کہ دوبارہ ایسا درد دینے والا جرات ہی نا کرے کہاں ہم نے سانحوں اور حادثوں کو تواریخ سے منسوب کر دیا، اب ہم بہت سیانے ہیں، عیدین، عاشورہ، ربیع الاول، ماہ صیام سمیت تمام مذہبی تہواروں کو تو ہم نے ان کے اپنے اپنے خانے میں مقید کر ہی دیا تھا اب ہم اس دستور کو بھی اپنا چکے ہیں، 16 دسمبر کو پہلے ڈھاکہ اور پھر اے پی ایس کا ذکر کر کے ٹسوے بہائیں گے، 25دسمبر کو قائد سے والہانہ محبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی وش کر دیں گے، 14 فروری کو اوٹ پٹانگ طریقے سے لڑتے جھگڑتے محبت کا دن منالیں گے تو فروری میں کشمیر سے یکجہتی کا دن، مارچ اور اپریل میں موج بہار ہو نا ہو بہر حال ایکٹنگ ضرور کر لیں گے، مئی میں مزدور طبقے پر احسان صادر فرمائیں گے اور اسی طرح باقی مہینوں اور مہینوں کے ایک ایک دن سے منسوب ایک خوشی یا اداسی والا ایونٹ،

یار کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں ہم لوگ؟ اپنے ایمان سے بتائیں یہ فطری عمل ہے؟ فطری عمل ہے تسلسل، کھانا، پینا، سونا، سانس لینا۔
مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے بعد اسے بھی فطرت کی پیروی میں دن رات رویا ہوتا تو بخدا آج ہر کسی کو مرکزی اور وفاقی قیادتوں اور طاقتوں پہ شک نا ہوتا، سرحدی اور قبائلی علاقوں میں عوام بد ظن نا ہوتی، دشمن کسی بھی جگہ سے گُھسنے کی کوشش کرتا تو منہ کی کھاتا، لسانی اور صوبائی عوامل نے ہماری شہ رگ میں پنجے نا گاڑے ہوتے، لوگوں کو حقوق سے زیادہ خیال فرائض کا ہوتا، لیکن نہیں، ہم نے وہ کام کرنا ہی نہیں۔

ہم صرف آج کے لیے دھواں چھوڑیں گے، کل سے اگلے 16 دسمبر تک ڈھاکہ پھر واپس آجائے گا، وہ ننھے منھے شہید دوبارہ سکول جانے لگیں گے اور پھر سب کچھ ایسے ہی چلے گا۔ یہ ٹائم اینڈ ایونٹ ایڈجسٹمنٹ چھوڑ کر حقیقت کے دائرے میں آئیں، ڈھاکا خوش ہے، بنگالی حُسن ماند نہیں پڑا، وہاں کا جادو آج بھی چیختا چنگھاڑتا ہے، بنگلہ دیشی کنہیا کا سانولہ پن ابھی بھی نمکین پانی کا کنواں ہے، آپ بلوچستان بچائیں، آپ سندھ بچائیں، آپ پختونخواہ بچائیں، آپ پنجاب بچائیں، اور کتنا ہی اچھا ہو کہ مجموعی طور پر یہ باقی شُدہ میری جان سے بھی پیارا، ہماری آن ہماری شان، ہمارا پاکستان بچائیں۔
اعلان ختم شُد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).