با-با بلیک شیپ


خبروں میں ہر طرف کسی بابے کا ذکر سن کر مجھے بھی اپنے گاؤں کے بابے یاد آئے اور یاد آتے ہی اپنے آپ سے اکتا سا گیا۔ دل نے کہا گاؤں اور اس کے بابے اتنے ہی اچھے لگتے ہیں تو وہیں چلے جاؤ روکا کس نے ہے۔ کون کہتا ہے شہروں کی خاک چھانتے پھرو۔

خود بابا ہونے کی عمر آیا چاہتی ہے اور اب تک کی آوارہ گردی سے یہی سبق سیکھا ہے کہ شہری بابے زیادہ مزے میں ہیں۔ ویسے بھی جس طرح پسند اپنی اپنی اور نصیب اپنا اپنا ہوتا ہے، اسی طرح گاؤں اپنا اپنا اور بابا بھی اپنا اپنا ہوتا ہے۔

ہمارا گراں اوکاڑہ کے مضافات میں ہے اور وہاں کچھ عدالتی اور کچھ عسکری بابوں نے ایسی پنچایت جمائی ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جو مزارعے دو بیگھہ زمین پر جینے کا حق مانگتے تھے وہ دہشت گرد قرار پائے ہیں۔ جو صحافی ان مزارعوں کے بارے میں کبھی خبر چھاپ دیتا تھا وہ بھی دہشت گردی کے الزام میں جیل میں سڑ رہا ہے، ان کے وکیل بھی کبھی اندر تو کبھی باہر۔

آپ سوچیں گے کہ وسطی پنجاب کا علاقہ ہے کوئی سیاسی بابا ہی زبان کھولے گا لیکن وہ بھی بکل مار کر سر ہلاتے نکل جاتے ہیں کہ خود ہی بھگتو۔ کبھی کبھی لگتا ہے بلوچستان ایسے ہی بدنام ہے۔ سب سے زیادہ دہشت گرد تو اوکاڑہ چھاؤنی کے اردگرد مزارعوں کا بھیس بدل کر رہ رہے ہیں۔

اس لیے بھول جائیں گراں کے بابوں کو اور بات کریں ان بابوں کی جن کا ذکر پڑھتے پڑھتے ہم شہروں میں آ بسے اور آبائی پیشے چھوڑ کر قلم کی مزدوری کرنے لگے۔ اگر آپ کو گذشتہ 70 سال کے اردو ادب میں کچھ دلچسپی رہی ہے تو آپ نے بھی ان بابوں کا ذکر پڑھا ہوگا۔

وہ بابا صاحبا والے بابے جو 1965 کی جنگ میں راوی کے پل پر کھڑے ہو کر ہندوستانی طیاروں سے گرائے جانے والے بم کیچ کر کے ہاؤز دیٹ کے نعرے لگاتے تھے۔ وہی بابے جو ایوب خان کے دفتر میں چپکے سے آ جاتے تھے اور کہتے تھے عالی جاہ! تن کے رکھو۔ جی ہاں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب والے بابے۔ ہمارے ذہن میں ان ہوش ربا کرداروں کے بارے میں پڑھتے پڑھتے بابے کا ایک ہیولہ سا بن گیا تھا۔

پھر ہم نے بابا محمد یحییٰ خان کو دیکھا اور لگا کہ ایک کتابی کردار زندہ ہو کر سامنے آ گیا ہے۔ کالی دراز زلفیں، نورانی سفید داڑھی، کالا ریشمی چوغہ، چمکتی ہوئی دستار اور ہاتھ کی پانچوں انگلیوں میں شترمرغ کے انڈوں جتنے بڑے نگینے۔

کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہی ہیں جو ہم سمجھے تھے۔ اشفاق صاحب اور ممتاز مفتی کے قریبی ساتھی۔ دل عش عش کر اٹھا کہ ایک شخص نے اپنے روپ بہروپ کو اپنے رہن سہن کو ایک افسانوی کردار میں ڈھال لیا۔ اور ظاہر ہے جو کردار کتابوں سے نکل کر آئے گا وہ کرے گا کیا؟ کتابیں ہی لکھے گا۔

بابا یحییٰ کی کتابیں دکانوں میں سجی نظر آنے لگیں۔ جہازی سائز کی کتابیں اور ایسے نفیس کاغذ پر چھپی ہوئیں جس پر لوگ شادی کے کارڈ چھاپتے ہیں۔ قیمت دیکھی تو چار ہزار، پانچ ہزار۔ مطالعے کا شوق ہے لیکن یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ اتنے میں تو پانی کا ٹینکر آ جاتا ہے اس لیے ورق گردانی کر کے ہی روحانی تشفی حاصل کی۔

ان کی کتابوں کے بھی کیا کیا نام۔ ‘پیا رنگ کالا’، ‘کاجل کوٹھا’۔ اور یہ پڑھ کر تو بابے بھی انھیں اپنا بابا مان لیں۔ ‘بے بابا ابابیل۔’

بابا جی کے انٹرویو سنے تو افسانوی کرداروں سے بھی مزیدار۔ آپ علامہ اقبال کی دعا سے پیدا ہوئے تو ان کی گود میں ہی کھیلے۔ دنیا جہان کے سفر کیے۔ اداکاری کی، ولایت والوں کو آلو گوشت کھانے کے آداب سکھائے۔

اپنے آپ کو ملامتی کہنے والے بابا یحییٰ اپنی ویڈیوز میں ہمیشہ صوفیانہ محبت اور سو سو کے نوٹ بانٹتے نظر آتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ پاکستانی کرنسی اتنی کمزور ہے کہ اس میں دینے کا ہی مزہ ہے لینے کا نہیں۔

ایک انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ میرے سر میں اتنے بال نہیں جتنے میں نے بچپن میں مرغیاں چوری کی ہیں۔ اپنی روزمرہ زندگی میں وہ کبھی داتا دربار پر دھمال ڈالنے والوں کو ویلیں دیتے نظر آتے ہیں تو کبھی بچوں کو یہ سبق کہ ہر تخلیق کار اصل میں تھوڑا سا دھوکے باز ہوتا ہے۔

میں ان کے سچے فنکار ہونے کا قائل تھا ہی لیکن پھر ان کی آنے والی نئی کتاب کا نام سنا تو باقاعدہ غائباً بیعت کر بیٹھا۔ اپنی کتاب چھپوانے کے لالچ میں لاہور کے ایک بڑے ناشر کے پاس گیا۔ ان کی شاندار دکان کے سامنے والے شیلف بابا صاحب کی کتابوں سے بھرے پڑے تھے۔

میں نے ناشر سے پوچھا کہ آج کل لوگ پانچ چھ ہزار روپے کی کتاب خرید لیتے ہیں۔ انھوں نے مجھ پر وہ نظر ڈالی جس کا مطلب ہوتا ہے، اوئے غریب آدمی تو کیسی بات کرتا ہے۔ فرمایا کہ اس ملک میں قدردان بہت ہیں۔ بابا صاحب کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔

پھر میں نے بابا صاحب کی کتاب جو ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی اس کا ایک بڑا سا پوسٹر دیکھا۔ کتاب کا نام ہے ‘بابا بلیک شیپ’۔

تو قارئین گاؤں کے بابوں کو بھول جائیں۔ جیب ڈھیلی کریں، بابا بلیک شیپ کی کاپی بک کروائیں اور فیض پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).