اصلی ہیرو کون؟


بچپن سے کہانیاں سنتے آئے تھے کہ ایک شہزادی ہوا کرتی تھی اور ایک شہزادہ۔ بدبخت جادوگر شہزادی کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا کرتا تھا اور عقلمند شہزادہ اپنی ذہانت اور بہادری سے شہزادی کو جادوگر کے شکنجے سے چھڑا لیا کرتا تھا. پھر سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے اور کہانی ختم۔

مگر نجانے کتنے ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات میسر ہی نہیں۔ مثال کے طور پہ کیا اس سارے وقت جب شہزادہ خوفناک بلاؤں سے لڑرہا ہوتا ہے بھلا شہزادی اپنا وقت کیسے گزارتی ہے؟ کیا وہ بور نہیں ہوتی؟ شہزادیاں آخر اتنی نکمی اور کم عقل کیوں ہوتی ہیں کہ ہر بار کسی نہ کسی جادوگر کے شکنجے میں پھنس جایا کرتی ہیں؟ اور کیا ضروری ہے کہ شہزادوں کو بہادری کے صلے میں ہمیشہ شہزادی سے شادی کا تحفہ ملے؟ کیا کسی نایاب سکے یا کسی آم کے باغ سے کام نہیں چلایا جا سکتا؟

ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ کہانی لکھنے والے حضرات خواتین کو ہیرو سمجھتے ہی نہیں اور یہی سوچ سماج کی عکاسی بھی کرتی ہے لہٰذا جب کوئی عورت رول ماڈل بن کے ابھرتی ہے تو اس کی ذاتی زندگی یا اس کے گھر کے مرد حضرات پر بے مقصد توجہ دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال منیبہ مزاری صاحبہ ہیں۔ منیبہ مزاری پرعزم خاتون ہیں۔ ایک حادثے کے باعث وہ اپنی دونوں ٹانگیں استعمال کرنے سے قاصر ہیں اور بعد میں منیبہ نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے خاوند سے طلاق لے لی تھی۔ اب ان باتوں پہ بحث کرنے کا تو فائدہ ہے نہیں کہ طلاق کیوں ہوئی اور کن حالات میں ہوئی۔

دردناک بات یہ ہے کہ منیبہ مزاری کو ان دنوں جس قسم کی گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بیانیے میں ہیرو صرف مرد بن سکتا ہے۔ عورت اگر غلطی سے ہیرو بن جائے تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف نہیں کیے جا سکتے اور اس کی ساری زندگی کے خوردبین کے نیچے رکھ کا جائزے لیے جائیں گے۔ اس پر تبصرے اور تجزیے ہوں گے اور اس کے نتیجے میں لوگ اسے ذلیل و رسوا کریں گے۔ یہ معافی تلافی والی آفر صرف مرد حضرات کے لیے قابلِ قبول ہے۔

جونی ڈیپ

اداکار جانی ڈیپ پراپنی سابقہ اہلیہ ایمبر ہیرڈ پر ہاتھ اٹھانے کا الزام ہے

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں کچھ عوامی شخصیات کے وڈیوز سامنے آئے ہیں لیکن غم و غصے کے تھوڑے بہت اظہار کے بعد وہی شخصیات دوبارہ سامنے آتے ہیں۔ نہ کسی کو ان کی پارسائی پر شبہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے ماضی کو کھنگالتا ہے کہ اس نے فلاں سال فلاں ٹی وی شو میں جو بات کی تھی وہ اس بات سے کتنی مختلف ہے۔

چلیے اگر یہ صرف اپنے ملک کی بات ہوتی تو پاکستان کو بھلا برا کہہ کے ہم معاملہ رفع دفع کر دیتے۔ ہم ٹھہرے جاہل لوگ اور جاہل قوم، ہمارے لوگ بے وقوف ہیں’ وغیرہ وغیرہ۔ مگر حال ہی میں ہیری پوٹر کی لکھاری جے کے رولنگ نے ہالی وڈ ایکٹر جانی ڈیپ کو اپنی نئی فلم میں کاسٹ کرنے پہ صفائی پیش کی۔

واضح رہے کہ اداکار جانی ڈیپ کے اوپر اپنی سابقہ اہلیہ ایمبر ہیرڈ پر ہاتھ اٹھانے کا الزام ہے۔ مگر جے کے رولنگ نے ایک بیان میں کہا کہ سب کو اب اس مسئلے سے آگے بڑھنا چاہیے اور وہ جانی ڈیپ کی کاسٹنگ سے حقیقی طور پرخوش ہیں۔

جے کے رولنگ کی نئی فرنچائز ایک ملٹی ملین ڈالر پراجیکٹ ہے اور ڈیپ کا اس میں موجود ہونا شاید یہی کہتا ہے کہ مرد ولن بھی ہو تو بھی فائدے میں رہ سکتا ہے جبکہ عورت ہیروئن بن کے اکثر و بیشتر محض گالیوں کا محور رہتی ہے۔

دنیا بھر میں اس وقت ’می ٹو‘ نامی تحریک چل رہی ہے جس کا استعمال کر کے ہالی وڈ کے معروف اداکار ہالی وڈ میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کے واقعات پر بات کر رہی ہیں۔ ہاروے وائنسٹین نامی ایک پروڈیوسر کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں کے کئی واقعات سامنے آئے اور کئی متاثرہ خواتین نے اپنے بیان حلفی ریکارڈ کروائے۔ اس گھناؤنے چہرے کو ہالی وڈ کے اندرونی ذرائع تو سدا سے مانتے تھے لیکن اس قدر زور و شور سے اس پر بحث و مباحثہ پچھلے چند ماہ میں ہی ہوا ہے۔

مریم نواز

چاہے وہ ملالہ یوسفزئی ہو جسے آئے روز اہل پاکستان جی بھر کرغلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ چاہے وہ شرمین عبید چنائے ہوں یا ریحام خان ہوں یا مریم نواز

رپورٹس کے مطابق ہاروے وائنسٹین باقاعدہ طور پر خواتین کو اپنے برتاؤ کے بابت خاموش رہنے پہ مجبور کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی عورت پریس میں جا کر ان واقعات کی شکایات درج کرنے کا کہتی تو اس کے کریئر کو ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی۔ نیز یہ کہ انہی دیو مالائی کہانیوں کی طرح عورت کا کردار خاموش تماشائی جیسا ہی گنوارا ہے۔ زیادہ شور مچانے والی عورت یا نمایاں ہونے والی عورت یا اپنے ساتھ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والی عورت کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا اور ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ آئندہ کوئی عورت سوچ سمجھ کر آواز اٹھائے۔

چاہے وہ ملالہ یوسفزئی ہو جسے آئے دن پاکستانی حضرات (بمع خواتین) جی بھر کر غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ چاہے وہ شرمین عبید چنائے ہوں یا ریحام خان ہوں یا مریم نواز۔ عوامی سطح پر موجود ہر عورت کو ایک ایسے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا ہے جہاں سے مرد کا دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ عوامی سطح پہ خواتین پر جس نوعیت کے اعتراضات اور اختلافات کیے جاتے ہیں ان سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ اس بات پہ نہیں کہ مریم نواز پہ کرپشن کے الزامات ہیں یا منیبہ مزاری نے کب کون سی صحیح اصطلاح استعمال کی یا نہیں کی بلکہ گالیوں اور ملامتوں کے اس طوفان میں یہ ہی نظر آتا ہے کہ عورت کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ عوامی سطح پر آ کر اپنی اچھی (یا بری) سوچ کا اظہار کر سکے۔

’گھر چھوڑ کر بھاگ گئی‘ یا ’اپنے گھر کو توجہ نہیں دی اس لیے میاں نے چھوڑ دیا’، ‘ملالہ نے جینز پہن کے ملک کا نام بدنام کر دیا‘، ’یہ سب ہراساں ہونے کا شور شرابہ عورتیں مقبولیت کے لیے کرتی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔

ہر طرح کا اختلاف پدرانہ نظام کے اس خاص نسخے سے جڑا ہے کہ عورت کی اپنی شناخت، اس کی اپنی زندگی کا سفر اور اس کا اپنا کردار تب تک پاک صاف اور قابلِ قبول ہے جب تک وہ پدرانہ نظام کے اصولوں کے عین مطابق چلے۔ ایک اچھی سی شہزادی کی طرح جادوگر کے قبضے میں رہے جب تک اسے کوئی حسین شہزادہ آ کے بچا نہیں لیتا۔

کیونکہ بہادری عورت کا شیوا نہیں۔ البتہ بہادر عورت کے لیے ہمارے ہاں ایک اور اصطلاح ہے جو معذرت کے ساتھ میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).