کیپٹن شیخ شہباز الحق فاروق زرداری قادری رضوی وغیرہ وغیرہ


اگر اس کالم کا عنوان پڑھ کر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کالم کسی فوجی یا سابق فوجی سے متعلق ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ یہ کوئی سلسلہ قادریہ یا رضویہ کی مدح سرائی پر مبنی مذہبی کالم ہے تو بھی آپ غلطی پر ہی ہیں۔ ہم تو دراصل صرف آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے نمایاں سیاست دانوں کی تھوڑی بہت مٹی پلید کرنا چاہ رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف کی نا اہلی اور عمران خان کی ”ہاں اہلی“ کے بعد آنے والے انتخابات میں صورت حال واضح ہوتی نظر آتی ہے۔ احتساب عدالت میں اپنی آؤ بھگت کرواتے ہمارے سابقہ وزیر اعظم صاحب ممکنہ طور سے اگلے انتخابات کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جائیں گے۔ ان کی نا اہلیت کے بعد جو راہنما میدان میں رہ گئے ہیں ان کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔

آئندہ انتخابات میں گذشتہ انتخابات کی طرح جو راہنما سب سے متحرک اور نمایاں دکھائی دیتے ہیں وہ المشہور کپتان یعنی اہل عمران خان ہیں۔ اہل عمران خان ایک پارہ صفت انسان ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ان کا پارہ چڑھا ہوا ہی ہوتا ہے۔ آج کل پارے کے ساتھ ساتھ ان کی گڈی بھی چڑھی ہوئی ہے کیونکہ اب ان پر اہلیت کا عدالتی ٹھپا بھی لگ چکا ہے۔ عدالتی ٹھپا لگ جانے کے بعد اب وہ ٹھپے لگانےوالا کھیل جلد از جلد کھیلنے کےخواہشمند ہیں۔ غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹھپے کو ٹھپے سے راہ ہوتی ہے اور انہے واہ ہوتی ہے۔ یعنی ٹھپا ٹھپے کو کھینچتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ان کا کام ٹھپا جائے وہ اتنے ٹھپے حاصل کر لیں کہ ملکی مسائل کو ٹھپ سکیں۔

شیخ رشید احمد ایک ایسے سیاستدان ہیں جو گردشی قرضے کی طرح ہر وقت پائے جاتے ہیں۔ یعنی سدا بہار ہیں۔ گردشی قرضوں ہی کی طرح ان کی ”مالیت“ بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔ پاناما کیس میں عدالت سے شاباشی وصول کر چکے ہیں۔ موٹر سائیکل کی سواری ہو یا مواصلاتی وین کی چھت پر تشریف رکھ کر سگار پینا۔ قوم کو ان کی پیش گوئیوں کی طرح ان کا ”اسٹائل“ بھی پسند ہے۔ انتخابات میں کم ازکم اپنے حلقے میں ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

ایک شہباز وہ ہے جس کی پرواز سے زمانہ جلتا ہے اور ایک شہباز وہ ہے جس کی رفتار سے مخالف جلتے ہیں۔ حاضر سروس وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف خاندانی منصوبہ بندی کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنی وہ عوامی منصوبہ بندی کی کرتے ہیں۔ جتنا زور وہ عوامی منصوبوں پر لگاتےہیں اس سے کئی گنا کم خاندانی منصوبہ بندی پر لگا لیتے تو اس وقت وزیر اعظم ہوتے۔ وہ وقت قریب ہے جب ہم ان کے شعلہ بیاں خطابات سننے کا شرف حاصل کریں گے۔ شعبہ سمعی و بصری والوں نے اب کی بار ان کے ڈائس پر مائک مضبوطی سے گاڑنے کا سوچا ہے تاکہ متوقع نقصانات سے محفوظ رہا جا سکے۔ انتخابی مہم میں اگر انہوں نےخود کمان سنبھالی تو مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں البتہ اگر ان کے ہونہار فرزند اپنی ”روایتی سیاست“ کر گئے تو کم ازکم پنجاب میں اکثریت حاصل کر لیں گے۔

سراج الحق نے اپنے پاؤں پر ڈیزل میں لت پت کلہاڑی مارنے میں کسرنہیں چھوڑی۔ عصر حاضر میں ملکی سیاست میں ذاتی شرافت ونجابت کی چلتی پھرتی اس مثال کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر ہیں۔ البتہ جیب سے غریب ہیں جو ان کی خامی گنی جاتی ہے۔ سیاست غریبوں کا کھیل نہیں رہا اسی لیے ان کی جماعت کو ملک گیر سطح پر نمائندگی کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ اب یہ تو آپ سمجھتے ہی ہیں کہ ایک بھوکی ننگی قوم کے نمائندے بھوکے ننگے تو ہرگز نہیں ہو سکتے۔

کراچی کے فاروق ستار اب ایم کیو ایم پاکستان کے اکلوتے سربراہ اور ماں کے لعل ہیں۔ وہ ایک شعر ہے ”دکھائے پانچ عالم اک پیامِ شوق نے مجھ کو۔ جھگڑنا، روٹھنا، لڑنا، بگڑنا، دور ہو جانا“۔ مصطفیٰ کمال کے ساتھ اسی پیامِ شوق میں ہوئی پریس کانفرنس کے بعد یہی پانچ عالم اگلے روز پوری قوم نے براہ راست ملاحظہ کیے۔ اس دن احساس ہوا کہ ماں کتنی بڑی نعمت ہے۔ فاروق ستار صاحب کا پاؤں بری طرح رپٹ گیا تھا مگر اپنی والدہ ماجدہ کے آنچل کا کونا تھام کر انہوں نے قدم جما لیے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوطی سے جما لیے۔ اب انتخابات میں کراچی کی اپنی کچھ نا کچھ نشستیں حاصل کر ہی لیں گے۔

زرداری صاحب کچھ عرصہ پہلے سب سے بھاری تھے مگر پچھلے چار سالوں میں نہ صرف ان کا وزن تیزی سے گرا ہےبلکہ وہ خود بھی کافی گر گئے ہیں۔ وزن گرنے کا البتہ ایک فائدہ زرداری صاحب کو ہوا ہے کہ اب وہ سٹیج پر رقص کر نے لگے ہیں۔ ان کی جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے زرداری صاحب کے رقص کو رقص بسمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب کے ایک عدد فرزندِ ارجمند بھی ہیں۔ نام ان کا بلاول بھٹو زرداری ہے۔ ذہین نوجوان ہیں مگر کھل کر پرواز نہیں کر پا رہے۔ آئندہ انتخابات میں پرامید ہیں کہ ان کی جماعت گذشتہ انتخابات کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں مگر ”پیپلز“ سے فی الوقت دور دور ہی رہتے ہیں۔

اب بچتے ہیں قادری، رضوی اور وغیرہ وغیرہ۔ غیر متاثر کن ووٹ بینک رکھنے والے یہ تمام افراد خود تو شاید عوامی نمائندگی کی سند حاصل نہ کر پائیں البتہ اچھے خاصے حلقوں میں ان کے ہلکے امیدوار بھاری فرق پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک بات کی مگر گارنٹی ہے۔ ان کے خطابات کی رونق انتخابی مہم کو چار چاند لگا دے گی۔ پاکستانی قوم ان کے زور خطابت سے کماحقہُ محظوظ ہو گی۔ آپ بھی خاطر جمع رکھیئے۔ مزے لیجیے اور ہماری طرح انتظار فرمائیے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad