مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی پر ایک نظر


زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں 28جولائی کے عدالتی فیصلے کہ بعدکے حالات کا اگر ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی سے کوئی کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتا ہواس ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اس اکیلی تن تنہا عورت نے پارٹی ووٹرز اور وورکرز کو نہ صرف جوڑ کے رکھا بلکہ مخالفین کی ہر بال کو فرنٹ فٹ پر آ کر پورے زور سے کھیلا۔ پارٹی مخالفین کی طرف سےتو مخالفت تھی ہی مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کے پارٹی بھی اندر سے تین گروپس میں بٹ چکی تھی۔ ایک گروپ مریم کے ہر فیصلے کو اداروں سے محاذ آرائی کہہ کراس کو چپ کرانے کی سر دھڑ کوشش کر رہا تھا۔ دوسرا گروپ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو مریم کے ہر فیصلے کی مکمل سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو لس ایگریسو ہونے کا مشورہ بھی دیتے تھے۔ اور تیسرگروپ وہ تھا جو مریم کے ہر فیصلے سے مکمل طور پر خوش تھا۔

مریم کا فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے کا فیصلہ بلاشبہ ہمت اور جرات کا فیصلہ تھا۔ یہ بات ان لوگوں کو سمجھانا مشکل نہیں جو پاکستانی سیاست کے رموز سے واقف ہیں۔

ایک پارٹی کا وزیر اعظم جب سپریم کورٹ سے اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد اس کو سازش کہے تو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کس کو للکار رہا ہے اور جس کو للکاراجا رہا ہے اس کی ہسٹری اور طاقت کیا ہے۔ جب پارٹی کی سینئر قیادت خواجہ آصف، چوہدری نثار اور احسن اقبال کے آپس میں اختلافات، نئے وزیر اعظم کا تقرر، الیکشن سے صرف ایک سال قبل نئی کابینہ کی تشکیل، اتحادیوں کی ازسرنو ایڈجسمنٹ کے مشکل معاملات کو سنبھالنے میں مصروف تھی اس وقت ووٹر ز کے درمیان پارٹی کے تشخص کو قائم رکھنے کا بیڑا مریم نواز نے اٹھایا۔

اگر پاکستانی سیاست کے ماضی کو دیکھا جائے تو مثالیں کثرت سے موجود ہیں کہ ایسی سیاسی جنگوں میں مہینے اور ہفتے توکیا سیاسی پارٹیاں دن بھی نہیں نکال سکتیں۔ ایسے نامساعد حالات میں پورے ملک میں پھیلا مسلم لیگ ( ن ) کا ووٹ بینک اپنے ساتھ جوڑے رکھنا اور ان حالات میں جوڑے رکھنا جب میڈیا کا ایک خاص طبقہ دن رات یکطرفہ رپورٹنگ کر کے پارٹی کے تشخص کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہا ہو آسان نہ تھا۔ عوام کی نظر میں سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان کے متفقہ فیصلے کو اپنے خلاف سازش ثابت کرنا کوئی برتھ ڈے کیک نہ تھا جو چاقو نہ ملا تو انگلی سے کاٹ لیا۔

یہ جنگ ووٹ کے تقدس کی ہے، یہ جنگ پاکستان میں جمہوریت کے بقا ء کی ہے، یہ جنگ ایک مضبوط خودمختار پارلیمان کی ہے، یہ جنگ ایک ایسی سوچ، فکر اور سسٹم کے خلاف ہے جو پاکستان کے عوام سے حق حکمرانی چھین کر ایک گروہ کو قابض کرنا چاہتا ہے، ان نکات کو لے کر مریم سامنے آئی اور ایک ایسے معاشرے میں ان کا پرچار شروع کیا جن کو پچھلے چار سال سے یہ رٹا دیا گیا تھا کہ یہ جنگ صرف اور صرف کرپشن کے خلاف ہے۔ ٹاسک مشکل ہی نہیں نامکن تھا۔ حالات سازگار نہیں تھے۔

مریم نے شروعات گھر سے کی نواز شریف کی جی۔ ٹی روڈ ریلی کا فیصلہ مریم کا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ وہ ایک درست بروقت اور زبردست آئیڈیا تھا۔ عملی سیاست میں این اے 120 وہ پہلا معرکہ تھا جو مریم کو سر کرنا تھا۔ بظاہر بڑی آسان منزل تھی یہ حلقہ مسلم لیگ ( ن ) کا گھڑھ تصور کیا جارہا تھا۔ مگر پھر چشم فلک نے نظارہ کیا کہ یہ آسان منزل نہ تھی۔ پہلی دشواری یہ تھی کہ خود امیدوار وطن عزیز سے ہزاروں میل دور ہسپتال کے ایک بستر پر ذندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ میدان میں 44 امیدوار مقابلے کے لیے لائن حاضر ہو چکے تھے۔ مخالفین کے ہاتھ الیکشن نعرے کے طور پر پانامہ کا فیصلہ بھی آ چکا تھا۔ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں کہ مریم کی سپورٹ میں خود پارٹی کے بھی کم لوگ تھے سب اپنی اپنی جگہ دیگر محاذوں پر کھڑے تھے اور مریم اس مشکل محاذ پر تن تنہا۔

مریم یہ الیکشن اکیلے لڑی اور جیتی۔ این۔ اے 120 کی جیت نے نہ صرف سب کو مریم کی سیاسی بصیرت کا قائل کیا بلکہ بیک فٹ پر کھڑی مسلم لیگ ( ن ) کی کنفیوزقیادت، ووٹرز اور سپوٹرز کو بھی یکجا کر کے امید کی نئی روح ان میں پھونک دی۔

دراصل مریم جانتی ہے کہ اس کو کب کیا بولنا ہے۔ کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنے کارکن کی نبض سمجھ گئی۔ وہ جو بھی بولتی ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسلم لیگی کارکن کی آواز ہو۔ سب یک زبان ہو کر اس کو جواب دیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کا ووٹرچپ رہنے والا تھا وہ کم گو تھا آتا تھا تقریر سنتا تھا ووٹ ڈالتا تھا اور چلا جاتا تھا مگر مریم نے اس ووٹر کے اندر ایک نئی جان ولولہ اور جوش ڈال دیا۔ ووٹراب بولتا ہے جواب دیتا ہے۔ مریم نے رضاکاروں پر مشتمل اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اس حد تک موثر ٹیم بنایا کہ جہاں جہاں میڈیا نے پارٹی کو کوریج نہیں دی اس سوشل میڈیا ٹیم نے پارٹی کاز کو اپنی جانوں پر کھیل کر آگے بڑھایا۔ اس ٹیم کے ممبرز پر کیسسز بنے خواتین سوشل میڈیا ٹیم ممبرز کے گھر چھاپے پڑے تلاشیاں ہوئیں مگر حیرت ہے کہ کوئی ایک بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہوا ہو۔ ایک عرصہ تک مجھ سمیت بہت سے دیگر لوگ بھی سوشل میڈیا ٹیم کو اجرتی سمجھتے اور کہتے رہے مگر طویل ریسرچ کے بعد اب میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ٹیم اجرتی نہیں یہ سب رضاکار ہیں۔

ٓآج مسلم لیگ ( ن ) پھر سے مقابلے کی پوزیشن میں کھڑی ہے۔ مریم کی ثابت قدمی اور بھرپور سیاسی بصیرت نے مخالفین کی تقاریر کے عنوان ہی بدل دیے۔ نواز شریف چور ہے عدالت نے چوری پر نکالا اس سے آگے تقریر میں صرف فلسفہ ہی بیان کرنے کو رہ جاتا ہے۔ الیکشن اگر وقت پر ہوتے ہیں توذیادہ دور نہیں اور نواز شریف آج پھر مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اپنے حالیہ دور کی کارکردگی کا کریڈٹ تو تھا ہی اب مریم کی سیاسی حکمت عملی نے بغض نواز شریف اور سازش والا کارڈ بھی میاں صاحب کو تھما دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).