2017۔ ۔ ۔ بائیں بازو کے چند متحرک ثقافتی ٹولے!


چوراہوں پہ ’ٹریفک روک‘ سگنل بنا دیں ، پنڈی /اسلام آباد میں کسی حویلی /مسجد کا نام یا دنیا بھر میں خون جنون کی علامت۔ ’لال رنگ‘ سے انسانی جذبات کا شدتی رویہ اور تعلق تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ کاسٹمیٹک انڈسٹری اس ’لالی‘ سے جارحیت، جنسیت اور وحشت کے کتنے بھی شیڈز بنا لے، لال رنگ نےانسانی ترقی کی سب سے تیز رفتار صدیوں میں ’زریں زرد‘ نمائشوں کو کچلا ہے، مستقبل میں بھی کچلے گا۔ بہ رنگ جام احمریں ہر اک شام میں مچلا ہے، مستقبل میں بھی مچلے گا۔

اور سرمایے کی چھاتی پہ مونگ کو دلا ہے، مستقبل میں بھی۔ !

یہ محض خوش فہم مبالغہ نہیں، تاریخی مطالعہ ہے۔ اندازہ نہیں ، مشاہدہ ہے! تجربہ ہے!
بالکل ایسے، جیسے سبز بھی زندہ ہے۔ قدیمی استعارہ ٔ سبزہء بہار سے تصور ِاخروی خمار تک۔
اؤ آئی سی کے ’مونو‘ سے عسکری ’نونو‘ تک۔ عقیدتی دستارسے اوقاف کے دربارتک اورصاحبان تلورو تلوار تک۔ !
مگر جناب ’ہرے زرد‘ میں جب جب حدت آئے گی تو لاجیکلی کچھ عرصہ بعد ’لال‘ میں شدت آئے گی۔
ایسا نہیں کہ لال رنگ سبز کا حریف ہے بس اس کے دبدبے سے مرعوب نہیں ہے۔

آپ بیوروکریسی کی دستخطی روشنائی کیسی بھی سبز کر لیں ، وہاں تک پہنچنے کے خواہاں طالبعلم سست پڑیں تو فوراً لال ’زیرو انڈہ‘ ابلتا ہے۔ گنبد حسینی پہ بھی لال ہیرو جھنڈا مچلتا ہے۔ مارنے والے بھگت/باچا کے مشال/سبین جیسے کتنے بھی بچے مار لیں، اوکاڑہ سے بلوچستان تک بے شمار بابا جان پیدا ہوتے رہیں گے جو مزاحمت اور بغاوت بوتے رہیں گے۔ آج بھی، دنیا بھر میں مزاحمت والوں کو اسی رنگ سے تحریک ملتی ہے۔ اور یہی رنگ ( بہ شکل زخم یا تحریک) دکھا کر بھیک ملتی ہے اس مقتدرہ کو جو تیسری دنیا پہ قابض ہے اورغاصب ہے۔

یہ تمہید توخیر، لال کا مختصر منتشر تاریخی خلاصہ سمجھیے۔

آج عوام میں ’لال‘ بیسویں صدی کے سن ساٹھ ستر جیسا رومانوی بت نہ بھی سہی، زندہ ضرورہے اور اب تو اٹھتا بیٹھتا بھی ہے۔
آج بھی دنیا میں صرف ’ہری دھرنا‘ پارٹیاں ہی وجود میں نہیں آ رہیں۔ بایاں بازو سیاست و ثقافت میں اپنی چھل بل دکھا رہا ہے۔
کیوبا/ وینزویلا میں ابھرتی باغی حسیناؤں کی لال چولیاں ہوں۔ پراسرار روحانیت کی نروانی مسکراہٹ لیے نیپالی ہم جولیاں ہوں
جبر سے کھولتی انڈین جھگیاں کھولیاں ہوں ، درس گاہوں میں لال ہولیاں ہوں
یا اپنے سوشل میڈیا کی ریڈیائی بولیاں۔ لال زندہ ہے۔

سبز اور لال رنگ کے اس ’موازنۂ رنگ و نسل‘ میں کون سفید کو سیاہ کر رہا ہے اور کون سیاہ کو سفید بنانے کی کوشش۔ زرد پتوں کے بن میں ابھی کون بتائے، کیا بتائے۔ ! یہ رات بیت جائے، لال شفق منڈلائے، رنگارنگ دن آئے۔ تو تب کوئی سمجھائے کہ سرمائے کے زرد اور بے درد رنگ سے کون لڑا تھا اور استحصال پہ ’ سبز قدم ’ کس کا پڑا تھا۔ حقیقت میں کون بڑا تھا۔ سبز یا لال!

ابھی تو سیاہ رات ہے۔ ایسے میں ایک لال تارہ بھی کہیں چمکے تو آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ دل بہل جاتا ہے۔ شاید فیض صاحب بھی قید میں ایسے ہی دن گزارتے تھے۔

بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی

خیر۔ نیو لبرل سماج میں بائیں بازو کو سیاست کیسے کرنا چاہیے، یہ تو لال دانشور جانیں۔ ہم، حسن پرست تو بس لال کا جمال اور کمال دیکھنا چاہتے ہیں۔ سو سمجھتے ہیں کہ آج کا مزاحمتی آرٹ بھی اسی ’لال‘ کو سیاست سے ثقافت تک میں۔ نئے معنوں میں خوش سلیقگی سے برتنے کا نام اورروایت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا کام ہے۔

‘لال‘ کا یہی قدیم عظیم سابقہ ہمیں، پاکستان میں، 2017 میں، کئی ادبی ثقافتی ٹولوں میں پھر سے، پنپتا ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ طالبعلم کا تعلق راولپنڈی سے ہے سو یہ مشاہداتی تجزیہ دارالحکومتی مضافات تک محدود رہ پائے گا۔

اس وقت ’لال‘ سے منسوب ایک میوزک بینڈ(لال بینڈ)، متحرک ثقافتی گروپ (لال ہڑتال ) اور ایک سلسلہ وار ریڈیائی مکالمہ (لال ریمارکس پوڈ کاسٹ )نے مزاحمتی رنگ زیادہ رنگ بکھیرے ہیں۔ ’لال بینڈ‘ گلوکار شاہرام کے جانے سے ابتداً کچھ سست رہا مگر 2017میں، بالخصوص طالبعلموں میں زیادہ متحرک دیکھا گیا۔ ملک بھر میں مسلسل پرفارمنس، مرکزی میڈیا تک پہ کوریج اور بالخصوص سرکاری سکولز کے بچوں بچیوں میں ’لال و لال‘ سے آشنائی اس بینڈ کا کریڈٹ ہیں تاہم، اول تو اس کے مرکزی گلوکار خود ایک سیاسی جماعت کے سرکردہ رہنما ہیں سو براہ راست ان کی ثقافتی مشغولیت کم عمرطالبعلموں کے مخصوص سیاسی جھکاؤ اور براہ راست سیاسی پراپیگنڈہ کی ذیل میں لائی جاسکتی ہے۔ دوم، خطہ پوٹھوہار کے کروڑ بھر کے خطہ میں لال بینڈ کی پرفارمنس نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسلام آباد کا نسبتاً خوشحال، بائیں بازو کا خون تازہ اپنا جنون و شعور ’لال ہڑتال‘ میں سامنے لاتا ہے۔ اس گروپ کے نام کی ’ہڑتالی ناخوشگواریت‘ نظر انداز کریں تو کچی آبادیوں، انقلابی سیمیناروں اور مشال و فیض آباد دھرنا جیسے حساس سانحات پہ جرات مندانہ موقف قابل ستائش ہے۔ پشاور تا کراچی تھیٹر، رقص، نظم نگاری اور اداکاری کے جوہر دکھا چکا ہے تاہم ’ لال بینڈ ’ جیسی عوامی پذیرائی اور گھلاوٹ کے لیے اسے عوامی بالخصوص تعلیمی ’میدان‘ بہت کچھ کرنا ہے۔

لال ریمارکس پوڈ کاسٹ ( ریڈیائی مکالمہ ) کا پر جہت نام ظاہر کرتا ہے کہ حسیات، نفسیات اور موڈ کی جدیدتشہیری دنیا میں آپ تمہیدی خوشگوار تاثر دینے کے لیے اپنے نظریاتی ٹریڈ مارک (لال) کو پر معانی بھی بنا سکتے ہیں۔ ’لال ریمارکس‘ میں سیاسی، سماجی، ثقافتی موضوعات پر جم کر، ہٹ کر، سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے۔

کبھی سوشل میڈیا پہ ستائش باہمی کے کلک سے اکتا کر ارد گرد کے سرپھرے فکری دماغوں کو جاننا ہو تو ان کی لمبی، کڑوی، مشکل کچھ بور اورکچھ ”اور“ باتیں سننے کے لیے یہ ایک دلچسپ پلیٹ فارم ہے۔ بعض آوازیں تو مکرراً قابل سماعت ہیں۔ لال ریمارکس کے کچھ موضوعات دیکھئے جن پر شرکا میں مفصل بحث ہو چکی ہے۔

* سیاسی تحرک اور فعالیت کیوں ضروری ہے؟
* طلبہ تعلیمی اداروں میں مطمئن ہیں یا مضطرب؟
* کمزور مزاحمتی تحریکیں اور بائیں بازو کی ناکامیاں
* بڑھتا ہوا فاشزم اور ہمارا مستقبل
* گمشدہ سیاسی سماجی کارکن اور ہمارا کردار

یہ فکری مباحث کرنے والوں کا شخصی ونفسیاتی مطالعہ بھی دلچسپ اور خاصے کی چیز ہے۔

کہیں ایک سر تاپا ایکٹویسٹ میم /ماما بن کر دوٹوک سوال پوچھ رہی ہوتی ہے تو کوئی نوجوان آل راؤنڈر دھیمی گفتگو کی مسلسل اننگز کھیلتے ہوئے غیر جانبدار ’عوام‘ کو گدگدیاں کرتا ہے جبکہ ایک پروفیسر تو مدلل چپت تک رسید کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی کہیں کوئی بے چین باذوق روح عدم مساوات جنس پہ دھیما ، مختصرمگر دلسوزطنز کرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی کوئی ایکٹویسٹ نفسیاتی منتشر الخیالی کے باوجود تڑپتا الجھتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی کسی آرٹسٹ کے اک اک عضو میں جبر و استحصال پر فنکارانہ بغاوت اور معصومانہ احتجاجی ذائقہ دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ اس پوڈ کاسٹ پہ طویل گفتگو میں دلچسپی برقرار رکھنے کو شوخی، مسکراہٹ، موسیقی، وقفہ اور ڈرامائی عناصر کی آمیزش اسے عوامی سطح پہ مزید مقبولیت دے سکتی ہے

ابتدا میں عرض کیا کہ اکیسویں صدی کا مزاحمتی آرٹ بھی ’ لال‘ کو سیاست سے ثقافت تک میں۔ نئے معنوں میں خوش سلیقگی سے برتنے کا نام اورروایت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا کام ہے۔

امید ہے نئے برس کےثقافتی رنگوں میں لال رنگ مانند شفق کھلتا ملتا گھلتا دکھائی دے گا۔ بالخصوص آنے والے انتخابات میں یقیناً یہ اور ان جیسے دسیوں اور گروہ لال شفق صبح کے لیے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے۔

فیض کے مصرعے گوگل کرنے ولا یہ اداس نراش دلخراش طالبعلم مرغن اردو بھگارنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ نچلے درجے کا ایک رومان پرست ہے۔ عملی زندگی میں سست کاہل اور منتظر فردا مگر فیض بھی تو کہتے ہیں

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتۂ واماندگیِ آخرِ شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے

جانے کیوں، 2018 مجھے، بائیں بازو کے ثقافتی مظاہر سے جان پہچان کا سال لگتا ہے۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).