پاکستان اسٹڈیز سنڈروم


میں زمانہ ِ طالبہ علمی سے اس گمان کا شکار رہی تھی کہ پاکستانیوں خاص کر نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی، ہمسایہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک کے لیے غیرمنطقی نفرت اور حقارت، سوچنے کی عادت کا فقدان، تقلید کی عادت، اور غیر عملی رویے صرف تعلیم کی کمی کا نتیجہ ہیں لہذا جب مجھے تدریس کا موقع ملا تو میں پہلے دن قوم کی خدمت کا عزم لئے آنکھوں میں تعلیم و ترقی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کالج کے احاطے میں داخل ہوئی تھی۔ لیکن چند ہی دنوں میں میرےسارے سپنے اور عزم کے پرخچے اڑ گئے۔ کلاس روم اور اور اسٹاف روم دونوں ہی پاکستان اسٹڈیز سنڈ روم سے متاثرہ تھے اور کسی اجتماعی اور قومی منصوبے کے بنا اس وبائی مرض سے نبٹنا مجھ جیسی ننھی سی جان کے لئے خطرناک ہو سکتا تھا۔ یہ مرض کسی کی براہ راست جان نہیں لیتا لیکن کسی وقت بھی جارحانہ رویہ اختیار کرکے اپنی اور ارد گرد کے لوگوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔

یہ ایک ایسا وائرس ہے جسے بچو ں کو سرکاری اور کچھ غیرسرکاری اسکولز میں ایک مضمون پاکستان اسٹڈیز کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ اس وائرس کے ٹیکے نویں جماعت کے بعد باقاعدگی سے بی، اے تک دیے جاتے رہتے ہیں۔ اس سنڈ روم سے متاثرہ مریض کی علامات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں۔

اس کو لگتا ہے کہ وہ جس قوم سے تعلق رکھتا ہے وہ دنیا کی سب سے برتر قوم ہے اور خدا نے اس کو ہی ساری دنیا میں حکمرانی کا حق تفیض کر کے پیدا کیا ہے باقی تمام اقوام کفر اور گناہ کی پوٹ ہیں اس لئے قابل قتل اور قابلِ نفرین ہیں۔ لیکن ایسے مریض کو ان کافر ملکوں میں تعلیم اور نوکری حاصل کرنے کا انتہائی شوق ہوتاہے اور اگر نیشنلٹی اور گرین کارڈ کے لئےکسی کافر لڑکی سے شادی کا سلسلہ بھی چل نکلے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

ایسے مریض کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے ساری دنیا اپنے سارے کام دھندے چھوڑ کے اس کے وطن کے خلاف سازشیں کرتی رہتی ہے۔ گلیوں کوچوں میں کچرا پھینکنے، سڑکوں پہ پیشاب کرنے، قطار سے ٹریفک سگنل توڑنے، امتحان میں نقل کرنے تک سب کی ذمہ داری یہ ان ہی سازشی عناصر پر ڈالتا ہے۔

اس کا مریض نسیم حجازی کے ناولز کو تاریخ سمجھتا ہے اور اگر اس کی تصحیح کی کوشش کی جائے تو فورا آپ کو غدار ٹھہرا سکتا ہے۔ اس کو غیرمسلم اکثریت والے سیکولر ملک میں مسلم خواتین کا حجاب پہنا اپنا پیدائشی حق لگتا ہے لیکن اگر مغربی خواتین پاکستان میں شارٹس پہن کر گھومنے لگیں تو اس عمل کو مریض اپنی اسلامی شناخت پہ حملہ تصور گردانتا ہے۔ یہ اپنی پوری زندگی میں کسی ایک مولوی صاحب کا پلو غلطی سے اللہ کی رسی سمجھ کے مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور اپنے مولوی کے علاوہ ہر کس وناکس کو دشمن دین و ملت سمجھتا ہے۔

یہ مریض ہر اس شخص کو قوم کا ہیرو گردانتا ہے جو ریاستی قوانین کو پسِ پشت ڈال کر مذہبی یا فرقہ وارنہ جذبات سے مشتعل ہو کر اپنے کسی ہم وطن کی جان لے سکتا ہے ایسے شخص کی تصویر اور مزار دونوں سے مریض کو روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔

اس سنڈ روم کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ اس کے مریض کو خاکی رنگ، مونچھیں اور بھاری بوٹوں سے انتہائی محبت ہوتی ہے جہاں یہ چیز یں اکٹھی نظر آ جائیں مریض خود کو شاداں اور فرحاں نظر محسوس کرتا ہے۔

معاشی ابتری کے اشاروں، امن کی دگرگوں صورتحال، فرقہ وارانہ دہشت گردی، تعلیم و ٹیکنالوجی میں بدحالی کے باوجود اس مریض کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب لال قلعے پہ سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔ اس کی محبت کا انداز کافی جلالی ہوتا ہے۔ کسی ہزاروں میل دور ملک میں اس کے مذہبی خیالات مجروح کیے جاتے ہیں اور یہ اپنی توہین کا بدلہ اپنے ہی دیے گئےٹیکس کے پیسوں سے تعمیر کی گئی سرکاری املاک اور اپنے دوسرے ہم مذہب بھائیوں کی جان و مال کو نقصان پہنچا کے لیتا ہے۔

مندرجہ بالا علامات کا سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ اس سنڈروم سے ایک بار متاثر ہونے کے بعد مریض باقی سارے مضامین بھی پاکستان اسٹڈیز کی عینک لگا کے ہی پڑھتا ہے اِس وجہ سے اُس کو بین الاقوامی تعلقات، سماجیات، سیاسیات، فلسفہ اور ادب جیسے شریف النفس قسم کے مضامین سے اکتساب ِ علم نہیں کر پاتا۔

یہ متعدی مرض صرف اپنے جیسے لوگوں ہی سے گفتگو کے ذریعے تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کے تدارک کے لئے ہم جیسے مسکین لوگ تو کچھ نہیں کرسکتے لیکن اس کی شدت کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اسٹڈیز کے مندرجات کو ہضم کرنے سے پہلے اسے عقل یا کامن سینس کی چھلنی سے چھان لیا جائے۔ مستند تاریخ کی تازہ ہوا میں کبھی کبھی چہل قدمی کی جائے۔ عالمی ادب اور تاریخ کے معجون لینے سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ اور آخری بات، اس مریض کو لال ٹوپی پہنے ہوئے ایک شخص اور خواتین پر کڑی نگاہ رکھنے والے حضرت سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اسماء حسین نے دس سال تک کراچی اور اسلام آباد کے مختلف کالجز میں پاکستان اسٹڈیز کی لیکچرر کے فرائض سرانجام دیے۔ اسماء آجکل ویسٹل، نیو یارک میں مقیم ہیں اور پڑھانے سے تائب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).