عدالت سے علالت تک


”تندرستی ہزار نعمت ہے“ اس میں کوئی احتمال نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہزاروں نعمتوں میں سے تندرستی ہمارے لیے بیش قیمتی اور انمول تحفہ ہے۔ اس جملے کی قدروقیمت علالت میں گھرا شخص ہی بہتر محسوس کر سکتا ہے۔ یوں تو علالت انسانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے گناہوں میں کمی کا باعث بنتی ہے لیکن بسا اوقات خود ساختہ علالت آپ کو بہت سی مصیبتوں سے محفوظ رکھنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے۔ خود ساختہ علالت کے الفاظ سکول کے ان حسین لمحوں کو تازہ کرتے ہیں جب علالت کا ڈھونگ کر کے سکول جس کی بلند و بالا عمارت ہمارے لیے جیل کا منظر پیش کرتی تھی جہاں ایسا محسوس ہوتا تھا کے ہم محبوس ہیں اور اساتذہ بطور جلاد مقرر کیے گئے ہیں خود ساختہ علالت سے نہ صرف والدین کی شفقت، محبت اور پہلے سے زیادہ خاطر داری میسر آتی بلکہ زیادہ مسرت سکول سے چھٹی کی صورت میں نصیب ہوتی اور اگلے دن اس چھٹی کے نتائج سے استثناء کے لیے درخواست والد صاحب کے ہاتھوں سکول میں جمع کروا دی جاتی۔ خود ساختہ علالت کا یہ واقع ہر ماہ باقاعدگی سےایک بار ضرور رونما ہوتا تھا۔

پانامہ کی ڈرامائی انٹری نے الیکشن سے قبل ہی سیاسی ماحول گرما دیا ہے۔ اس بار الیکشن سے پہلے ”احتساب“ مقبول نعرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس نے عدالتوں کے بوجھ میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ مرکز نگاہ بنا دیا ہے۔ اس بار اس شکنجے میں پھنسنے والے لوگ سیاستدان ہیں۔ احتساب کی تلوار کے زیر سایہ حکومت اور اپوزیشن برابر ہے۔ احتساب کے لفظ سے ہمارے سیاستدانوں کو زیادہ مرعوبیت نہیں اس لیے وہ خود احتسابی کے قائل نہیں۔ احتساب کا مرحلہ ان کی ذات اقدس کے لیے انتہائی کٹھن ہے۔ کیونکہ یہ سوال ان کے ذاتی اثاثوں کی چھان بین کا ہے اور بقول سیاسی لوگوں کے وہ عوامی نمائندے ہوتے ہیں اس لیے ان کا ذاتی کچھ نہیں سب عوامی ہوتا ہے اور اگر کہیں عوامی خدمت کے کسی سرکاری ٹھیکے یا سرکاری اشتہارات سے چند سو کروڑ الگ بھی کر لیے گئے تو اس قدر واویلہ کیوں وہ کئی برسوں سے عوامی خدمت پر مامور بھی تو تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہر جگہ ایمانداری کے قصیدے الاپنے والے یہ عوامی نمائندے اپنے اثاثوں کی دن دگنی رات چگنی ترقی کے پیچھے کام کام اور بس کام کا عمل مضمر گردانتے رہتے۔ لیکن جب عدالت کے کٹہرے میں ان سے ان کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی کے ذرائع پوچھے جاتے ہیں تو بجائے بنانے کی انتھک محنت کے یہ اس سوال سے علالت کا شکار ہو جاتے ہیں اور سوچنے کی بات ہے کہ علالت کا حملہ شاید وکلاء برادری پر کسی قدر زیادہ ہونا چاہیے جو دن رات ایک کر کے ان کے کیسز کی تیاری میں جٹے رہتے ہیں۔

“عدالت سے علالت تک ” کی فہرست میں ٹاپ پوزیشن پر عوامی نمائندگی کے عہدیداران یعنی سیاستدان ہی براجمان ہیں۔ ان کی علالت کی بڑی وجہ شاید ہماری عدالتوں میں صفائی ستھرائی کے نا مناسب انتظام ہیں جہاں امراء اور حکمران پیشی کے فوراً بعدعلالت کا شکار ہو جاتے ہیں اور علالت اس قدر سنگین ہوتی ہے جس کا علاج صرف پردیس کے ہسپتالوں میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ قیاس یہ بھی ہے کہ شاید ہمارے امراء اور سیاستدان جو انتہائی لطیف، شائستہ اور نرم گفتار کے مالک ہوتے ہیں عدالتوں سے ان کی شناسائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ وہ انتہائی شریف النفس شخصیت کے مالک ہیں۔

عدالتوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ شریف لوگوں کی آمجگاہ نہیں چونکہ ہمارے سیاستدان ”شریف النفس“ ہیں اور شرافت کے تمام اصولوں پر کلی اترتے ہیں۔ ججز کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات ان کی ذات اقدس پر گراں گزرتے ہیں اور وہی سیاستدان جو عدالتی پروانہ وصول ہونے کے بعد پورے جاہ و جلال سے گاڑیوں اور لوگوں کے لاؤ لشکر میں مکے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں عدالتی سخت رویہ انہیں اگلے روز ہی ہسپتال کے بستر پر پہنچا دیتا ہے کیونکہ نرم مزاجی اور شائستگی ان کا آلہ کار رہا اسس لیے اس قسم کے رویے کے وہ کبھی متحمل نہ ہوئے تھے۔ جو ان کی علالت کی وجہ بنتا ہے۔

ایک عرضی چیف جسٹس صاحب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ایمرجنسی بنیادوں پر احاطہ عدالت میں ایک عدد ہسپتال قائم کیا جائے تاکہ علالت عدالت یا عدل میں حائل نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ ہمارے معصوم سیاستدانوں کو ذہنی و جسمانی صحت سے نوازے اور عام عوام کی طرح ان کو صبر، استقامت اور حوصلہ دے تاکہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات پر اس قوم اور عدالت کو مطمئن کر سکیں نہ کے علالت سے عدالت کے سفر کے پیچھے اپنے آپ کو چھپائیں۔ ­­­

علی امین
Latest posts by علی امین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).