زرداری صاحب کا فن


جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو والی پیپلز پارٹی کی لالٹین پکڑ کے آصف زرداری میں بھٹو ازم تلاش کرنے میں لگے پڑے ہیں انھیں پورا حق ہے کہ وہ زرداری صاحب کو ایک زیرک سیاسی معمہ سمجھتے رہیں۔ مگر جن لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ پیپلز پارٹی اصلی پیپلز پارٹی کی فرنچائز ہے انھیں آصف زرداری کے اس فن پر قطعاً حیرت نہیں کہ وہ اچانک مالکونس گاتے گاتے راگ جھنجوٹی پر کیسے اتر آتے ہیں اور پھر اسی اعتماد کے ساتھ مالکونس پر کیسے پلٹ جاتے ہیں۔

یہاں تک تو موازنہ درست ہے کہ اصلی پیپلز پارٹی بھی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی تھی اور فرنچائزڈ پیپلز پارٹی بھی ایک خاندانی میراث ہے۔ مگر اصلی پیپلز پارٹی کی خاندان ہونے کو پارٹی ورکر ایک مقبول ناگزیر مجبوری سمجھتا تھا اور موجودہ خاندانیت پاپولر توثیق کے راستے کے بجائے ’دریافتی وصیت‘ کی سیڑھی سے پارٹی پر نازل ہوئی ہے۔

اصلی پیپلز پارٹی میں بھلے رسمی طور پر ہی سہی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی ایک علامتی اہمیت تھی اور اہم پالیسی فیصلے سنٹرل ورکنگ کمیٹی سے ’صلاح مشورے‘ کے بعد ہی کیے جاتے تھے۔ کیا آج کی فرنچائزڈ پیپلز پارٹی کا عام کارکن (اگر کوئی ہے ) جانتا ہے کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے ارکان کون کون ہیں اور جب سے زرداری صاحب نے باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوئے اور کتنے اہم ترین نظریاتی و سیاسی فیصلوں کی توثیق اس سے کروائی گئی۔

اصلی پیپلز پارٹی میں سب جانتے تھے کہ بھٹو صاحب ہی چیئرمین ہیں اور ان کے بعد بے نظیر بھٹو ہی چیئرپرسن تھیں۔ آج پارٹی سربراہ کون ہے؟ زرداری یا بلاول یا پھر زرداری اور فریال؟ یا پھر بلاول زرداری فریال ٹپی؟ کیا آئیڈلسٹ کچے پن کے شکار بلاول اور انتہائی عملیت پسند زرداری موجودہ فرنچائز بزنس کو چلانے کے بنیادی اصولوں کی بابت ایک پیج پر ہیں؟ اور یہ پیج کس کے ہاتھ میں ہے؟

بھٹو خاندان کا مسئلہ یہ تھا کہ آڑے وقت کے لیے عوامی مقبولیت کے خزانے کو بہر طور بھرا رہنا چاہیے۔ موجودہ فرنچائز قیادت کی ترجیح یہ ہے کہ آڑے وقت کے لیے ’خزانہ‘ کسی قیمت کم نہیں رہنا چاہیے۔ اور اگر قلفی کا ٹھیلا الٹ بھی جائے تو عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ اسے شرارتی بچوں سے آزاد کروا کے سیدھا کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے الٹے ٹھیلے سے ٹپکنے والی قلفی جتنی خود کھا سکتے ہو وہی تمہاری ہے۔

نظریاتی پیپلز پارٹی اپنی طبعی عمر کے دوسرے حصے میں بھی عوامی امنگوں کی ترجمانی اور اسٹیبلشمنٹ سے علامتی فاصلے کے سٹیکرز سنبھالتی رہی۔ مگر فرنچائزڈ پیپلز پارٹی نے ان سٹیکرز کے اوپر نیلے تھوتھے کی لئی سے یہ نظریہ چسپاں کردیا کہ عملیت پسندی ہمارا دین ہے، عملیت پسندی ہماری سیاست ہے، عملیت پسندی ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عملیت پسندی ہے۔ سیاست سیاست ہے کوئی قرآن و حدیث نہیں۔

میرے ایک ساتھی صحافی نے توجہ دلائی کہ چار اپریل ( بھٹو کی برسی ) اور 27 دسمبر ( بے نظیر کی برسی ) کو آصف زرداری کی گڑھی خدا بخش کی سالانہ تقاریر اٹھا کے دیکھ لیں۔ ایک تقریر میں میں وہ چی گویرا دکھائی دیتے ہیں اور دوسری میں چوہدری شجاعت حسین۔ اگر 27 دسمبر کو انقلابی شعلہ بیانی کی ہے تو اس پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کے لئے چار اپریل کو متصادم نظریات کے حامل لوگوں کو ایک ساتھ گلے لگانے کا پیغام پکا اور اگلی تقریر دوبارہ مار دھاڑ سے بھر پور۔

تازہ ترین مثال راحیل شریف ساگا ہے۔ پہلے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی پھر راحیل شریف کی جانب سے ایکسٹینشن نہ لینے کے اعلان کی اصولی حمایت کی اور پھر دونوں اینٹوں کو بجا کے اوپر تلے رکھا اور اس پر ایڑیوں کے بل راحیل شریف سے کہہ رہے ہیں ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، ابھی تو دل بھرا نہیں۔ ‘

اور اس بیان پر نواز شریف کے نو رتنوں کی حیرت و پریشانی دیدنی ہے۔ کیونکہ نواز شریف کا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی مقرر کردہ چیف سے اگلے دن ہی اشاروں کنایوں میں کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اب آ تو گئے ہو جاؤ گے کب؟

ہاں میرے جیسے مان لیتے کہ ’عوامی امنگوں کی روشنی میں چیف کو توسیع ملنی چاہیے‘ والا بیان آصف زرداری کا نہیں اگر وہ تیرے میرے سے ٹویٹری تردید کرانے کے بجائے فوری طور پر ذاتی تردید جاری کرتے اور اگلے ہی دن پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ قرار داد پیش ہونے سے روک دیتے کہ اس ایوان کی رائے میں راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ازبس ضروری ہے۔ اب پنجاب اسمبلی پیپلز پارٹی کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لے اور سندھ اسمبلی میں یہ قرار داد پیش نہ ہو تو زرداری صاحب کو اچھا لگے گا؟

پیپلز پارٹی چار بار برسرِ اقتدار آئی۔ بھٹو صاحب ٹکا خان سے بہت خوش تھے مگر توسیع نہیں دی۔ بے نظیر بھٹو نے اسلم بیگ کو تمغہِ جمہوریت دے دیا مگر توسیع نہیں دی۔ یہ زرداری حکومت تھی جس نے کیانی کی شکل میں کسی سپاہ سالار کو پہلی بار توسیع تھمائی۔

وہ فرنچائز ہی کیا جو سب کاروباری انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دے۔ وہ فرنچائز ہی کیا جو پھانسی کے رسے کا چھت پر چڑھنے، پھر اترنے اور پھر چڑھنے کا کرتبی استعمال نہ دکھا پائے۔

’آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے اور کچھ لوگوں کو مستقل بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ ‘ ( ابراہام لنکن )
25 فروری 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).