’’می ٹو‘‘ کے دور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا شرم ناک فیصلہ


ناروے کی سب سے بڑی پارٹی آربائیدر پارٹی اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے ایک نائب صدر نے کرسمس سے پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پارٹی خاتون ارکان کو ایسے ایس ایم ایس بھیجے یا گفتگو کی جو مناسب اور غیر پسندیدہ تھی۔ انہوں نے غیر مشروط طور پر اپنے طرز عمل کی معافی مانگی اور اقرار کیا کہ وہ آئندہ اپنا رویہ بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ غلطی کو تسلیم کرنے کے باوجود تھروند گسکے TROND GISKE پر دباؤ کم نہیں ہوا اور وہ اس وقت بیماری کی رخصت پر ہیں۔ اس حوالے سے پارٹی قیادت کو بروقت مناسب قدم نہ اٹھانے کی بنا پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دو ہفتے قبل امریکی سینیٹ کے ڈیمو کریٹک رکن ایل فرانکن کو جنسی زیادتی کے الزامات کی وجہ سے ان کے ساتھی سینیٹرز کے دباؤ پر استعفیٰ دینا پڑا۔ اسی طرح ری پبلکن پارٹی کے گڑھ الباما میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت کے باوجود پارٹی کے مقبول امیدوار رائے مور ڈیمو کریٹک امیدوار سے سینیٹ کی نشست کا انتخاب ہار گئے۔ اس نشست پر ری پبلکن پارٹی کی 25 برس میں پہلی شکست تھی۔ رائے مور پر جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ امریکہ اور ناروے کے علاوہ دنیا کے درجنوں ملکوں میں ’’می ٹو‘‘ مہم کے تحت متعدد اہم شخصیات شدید دباؤ میں ہیں۔ خواتین کی طرف سے اعتراف کی اس مہم میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

امریکہ میں مستعفی ہونے والے سینیٹر یا ناروے کی آربائیدر پارٹی کے دباؤ کی وجہ سے علیل ہونے والے نائب صدر کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔ بظاہر انہوں نے کسی قانون شکنی یا جرم کا ارتکاب بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔ ’’می ٹو‘‘ ME TOO تحریک کی وجہ سے دنیا میں خواتین کو ایک نئی قوت حاصل ہوئی ہے۔ وہ مردانہ تسلط اور مردوں کی طرف سے اپنی پوزیشن اور عہدہ کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ اس مہم میں متعدد نامور خاتون شخصیات نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرکے اس تحریک کو قوت، اعتماد و اعتبار بخشا ہے۔ اگرچہ جن لوگوں پر الزامات عائد ہوئے ہیں، وہ ان کی تردید بھی کرتے ہیں لیکن معاشروں میں عام طور سے خواتین کے اس حوصلہ و جرات کی داد دی جا رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس مہم کے نتیجہ میں ایک متوازن اور عدل کی بنیاد پر استوار معاشرہ کو استحکام مل سکے گا۔ جہاں کوئی مرد صرف اس لئے کسی خاتون کا استحصال کرنے کا حوصلہ نہ کر سکے جو جونئیر ہو یا کیرئر میں آگے بڑھنے کی خواہاں ہو۔ دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک کے باوجود پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ان دو کھلاڑیوں پر ایک ایک سال کی پابندی عائد کی ہے جنہوں نے اکتوبر میں ٹیم کے ہیڈ کوچ پر جسمانی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ پنجاب کے وزیر کھیل نے ٹیم کی کھلاڑی سیدہ سعدیہ کی طرف سے براہ راست شکایت موصول پر ہونے پر ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی۔

اس کمیٹی نے سعدیہ کے الزامات کو مسترد کر دیا اور اس کے علاوہ اس کے ساتھ زیادتی کی گواہی دینے والی ایک اور کھلاڑی اقرا جاوید کو جھوٹے الزامات لگانے کے جرم میں ایک سال تک پاکستان کی ڈومیسٹک یا انٹرنیشنل ہاکی کھیلنے پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔ ہاکی فیڈریشن نے اس سفارش کو من و عن قبول کرتے ہوئے دونوں کھلاڑیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ہیڈ کوچ سعید خان نہ صرف اپنے عہدے پر فائز ہیں بلکہ تحقیقاتی کمیٹی نے انہیں طلب کرکے الزامات کے بارے میں ان کا موقف سننے کی بھی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے شعبہ خواتین کی سربراہ تنزیلہ عامر چیمہ تحقیقاتی کمیٹی کی رکن بھی تھیں اور انہی کی گواہی پر دو کھلاڑیوں کو جھوٹا قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تنزیلہ چیمہ نے اکتوبر میں یہ شکایت سامنے آنے کے بعد نہ صرف سیدہ سعدیہ کو جھوٹا قرار دیا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ خود موقع پر موجود تھیں۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا اس لئے تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گویا انہوں نے شروع سے ہی کھلاڑیوں کی بجائے کوچ کا ساتھ دیا تھا اور جب وزیر کھیل جہانگیر خانزادہ کی ہدایت پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تو وہ خود اس کمیٹی کی رکن بھی بن گئیں اور گواہ کے طور پر شکایت کنندگان کے موقف کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ طریقہ کار کسی بھی طرح انصاف فراہم کرنے کے مسلمہ اصولوں کے مطابق نہیں ہو سکتا۔

سیدہ سعدیہ نے اکتوبر میں ایک ویڈیو پیغام میں ہیڈ کوچ سعید خان پر ہراساں کرنے اور ان کے کمرے تک پیچھا کرکے انہیں جسمانی طور پر چھونے اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان کی ایک ساتھی اس واقعہ کی عینی شاہد تھیں لیکن ہاکی فیڈریشن ایک مرد کے مقابلے میں دو لڑکیوں کی شکایت کو قابل غور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس معاملہ میں ایک کھلاڑی نے الزام عائد کیا، دوسری نے اس کی تصدیق کی لیکن ہیڈ کوچ نے اس سے انکار کیا۔ اس طرح دو موقف سامنے آتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی جرم سرزد نہیں بھی ہوا تو بھی مرد عہدے دار کو اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدے سے علیحدہ ہونا چاہئے تھا یا ہاکی فیڈریشن کو انہیں اس حیثیت سے الگ کر دینا چاہئے تھا۔ اس طرح کم از کم یہ امر یقینی بنایا جا سکتا تھا کہ ہیڈ کوچ کے طور پر اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ دوسری کھلاڑیوں کو متاثرہ لڑکیوں کی حمایت سے نہیں روک سکتے تھے۔ لیکن سعید خان کی طرح پاکستان ہاکی فیڈریشن نے بھی کوئی اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اس طرح پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شرکت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، یہ پیغام عام کیا گیا ہے کہ کھیل کا شعبہ بھی مہذب گھرانوں کی لڑکیوں کےلئے محفوظ نہیں ہے اور وہ اس شعبہ کے کار پردازوں کی نیک نیتی اور انصاف پسندی پر اعتبار نہیں کر سکتے۔

پاکستان جیسے معاشرہ میں جہاں غیرت کو سماجی رویوں میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، قومی و بین الاقوامی سطح پر ہاکی کھیلنے والی دو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک سے صرف یہ تاثر قوی ہوگا کہ زندگی کے کسی شعبہ میں کیرئر بنانے کی خواہش مند لڑکیوں کو اپنی خواہشوں کا گلا دبا دینا چاہئے یا ان کے گھر والے اس قسم کے واقعہ کی مثال دے کر کھیل یا کسی دوسرے شعبہ میں آگے بڑھنے کی خواہاں یا باصلاحیت بچیوں کو متحرک ہونے کی اجازت دینے سے انکار کریں گے۔ اس طرح ہاکی فیڈریشن کے تمام کار پردازوں نے اس عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے جسے متحرک کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہاکی فیڈریشن یا کھیل کے شعبہ کے دیگر اداروں پر خواتین کھلاڑیوں کو خوشگوار اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ زیر بحث معاملہ میں شکایت سامنے آنے پر فیڈریشن کے عہدے داروں نے شروع میں ہی فریق کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ ممکن ہے کہ الزامات کی نوعیت سنگین نہ ہو یا واقعات اس طرح پیش نہ آئے ہوں جیسے بیان کئے گئے ہیں لیکن فیڈریشن کے عہدے داروں کو اس حوالے سے غیر جانبدار رہتے ہوئے کمزور فریق کا ساتھ دینا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کے عام گھرانوں کو بھی یہ حوصلہ ملتا کہ وہ اپنی بچیوں کو پورے یقین کے ساتھ کھیلنے کےلئے بھیج سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر کوئی لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت کرے گی تو پورا ادارہ قصور وار اور طاقتور مرد کا ساتھ دے گا۔ یہ رویہ ملک کے کھیل کے شعبہ میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے حوصلہ شکنی کا سبب بنے گا۔

اس سے قبل ویمن کرکٹ ٹیم کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ بیرون ملک سے وطن واپس آنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کے استقبال اور ٹرانسپورٹ کا انتظام تک نہیں کیا تھا۔ کیونکہ خواتین کی ٹیم کو میڈیا اور لوگوں کی طرف سے وہ پذیرائی نصیب نہیں ہوتی جو مردوں کی ٹیم کو حاصل ہے۔ اس ماحول میں جو لڑکیاں بھی کسی بھی شعبہ میں مہارت حاصل کرتی ہیں اور کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ان کی ہمت و حوصلہ کی داد دیئے بغیر رہا نہیں جا سکتا کہ وہ تمام مشکلات اور حوصلہ شکنی کے باوجود قابل ذکر کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ سماج کے علاوہ اس معاشرہ میں کھیلوں کی ترویج کے لئے بنائے گئے ادارے بھی درحقیقت ان کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا فیصلہ اس حوالے سے دستاویزی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔

مردانہ تسلط پر استوار پاکستانی معاشرہ میں کوئی بھی لڑکی کسی بھی مقصد کے لئے کوئی ایسا الزام عائد کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی جس سے اس کی شہرت اور ’’عزت‘‘ پر حرف آنے کا امکان ہو۔ کیوں کہ منفی اور عدم مساوات پر استوار رویوں کی وجہ سے ایسی خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح ہاکی فیڈریشن کی طرف سے شکایت کرنے والی لڑکیوں کو سزا دینے کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ اس میں نہ صرف شکایت کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ لڑکیوں کو ذاتی فائدے کے لئے جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار دے کر منفی سماجی ذہنیت کو راسخ کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali