خود سے لاپتہ ہو جانے میں کسے فائدہ ملتا ہے؟


غائب ہوجانا بھی کیا کمال کا کارنامہ ہے۔ وہ بھی خود سے غائب ہوجانا، اس معاشرے سے اور ایک پر امن ملک سے۔ اس سے آپ چند دن میں ہی خوب شہرت حاصل کرلیتے ہیں۔ جابجا سوشل میڈیا پر تصویریں لگ جاتی ہیں، آپ کی تحریریں مزید پڑھی جانے لگتی ہیں اور قوم آپ کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دینے لگ جاتی ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اندر ہی اندر آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرسکتے ہیں اور چپ چاپ اس جہانِ خراب سے کوچ کر کے مغربی دنیا کے لطف اٹھا سکتے ہیں۔

ہاں یہی سب تو کرتے آئے ہیں ناں اب تک جبری طور پر (خود سے ہی) گمشدہ ہوجانے والے افراد۔

ایسے میں کچھ حساس ادارے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے ہیں کہ ہو نہ ہو انہی نے ان معصوم لوگوں کو غائب کر رکھا ہے۔  ظاہر ہے سب سے پہلے نظریں جانی بھی ان اداروں کی جانب چاہیے جو امن و امان کے تحفظ کی لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن جب اتنی تنقید و دشنام ان کا مقدر بنتی ہیں تو کیوں یہ اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے لوگوں کو تفتیش کے لئے لاپتہ کریں گے؟ ہرگز نہیں! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پہلے تو سوشل میڈیا پر دفاعی اداروں کے خودساختہ ترجمان اکاؤنٹ چلانے والے لونڈے لپاڑے  یہ نظریہ دیا کرتے تھے لیکن پچھلے دنوں بذاتِ خود آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے یہ بات کر کے کہ ‘کچھ لوگ خود سے لاپتہ ہوجاتے ہیں’ اس بیانیہ کو خوب تقویت بخشی ہے۔ ان یہ برحق ہوگیا ہے کہ غائب ہوجانے والے دراصل خود سے ہی غائب ہوجاتے ہیں۔

لیکن اس گمشدگی سے آخر فائدہ کس کو پہنچتا ہے؟

ظاہراً تو فائدہ، جیسا کہ عالی مقام جنرل صاحب نے فرمایا، خود سے لاپتہ ہوجانے والوں کو ہوتا ہے لیکن ذرا اس کی مزید جہات پر نظر دوڑاتے ہیں۔

امسال کی شروعات میں جبری طور پر (خود سے) لاپتہ ہوجانے والے سلمان حیدر، وقاص گورایا اور عاصم سعید کو ہی دیکھ لیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ تینوں ملک سے باہر مزے لوٹ رہے ہیں اور کافی حد تک شہرت بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

لیکن دراصل ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سلمان حیدر، وقاص گورائیہ اور عاصم سعید اس ملک میں جہاں ان کے گھر والے اب تک بستے ہیں واپس نہیں آسکتے۔ کچھ لکھنے یا اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پہلے بھی تذبذب کا شکار ہوں گے کہ ان کے پیارے اب تک اس خطہ زمیں میں بستے ہیں جہاں جبری گمشدگی مروجہ قانون ہے۔ ان کا درد آپ کو سرکاری پریس ریلیز جیسے سوشل میڈیا پیج یا اعلی افسران کے بیانات نہیں بتا سکتے۔ اس کی جانچ پڑتال اور حق تک پہچنے کی سعی آپ کو خود کرنی ہو گی۔

بات کچھ یوں بھی ہے کہ ہر شخص اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا جتنا کہ ہمارے دوست جو باہر آگئے۔

ذرا واحد بلوچ صاحب کا معاملہ لیجئے جو اگست 2016 میں غائب ہوئے تھے اور قریب چار ماہ بعد گھر واپس آئے تھے۔ یہ بھی عجیب معاملہ تھا جہاں کامریڈ اگر خود سے غائب ہوئے تھے تو انہوں نے واپس کسی دورافتادہ مغربی مملکت میں نہیں بلکہ اسی کراچی میں دوسری زندگی پائی۔

لیکن واحد بلوچ کو دیکھ کر خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس آزمائش سے گزرے ہیں۔ واحد بلوچ اب چاہتے ہوئے بھی ریاستی اداروں پر پہلی سی تنقید نہیں کر سکتے کیونکہ غائب رہنے کے بعد تجربہ انہیں یہی بتاتا ہے کہ وہ ایک آنکھ سب کو ہر وقت دیکھ رہی ہے۔ کامریڈ نے اب تک کسی میڈیا سے اپنی تجربے کے بارے میں لب کشائی بھی نہیں کی۔ ہوسکتا ہے کہ جاں بخشی بھی لب سی لینے کی شرط پر ہوئی ہو۔

ایک اور مثال ہے ہمارے پاس جہاں خود سے غائب ہوجانے والے کو کچھ فائدہ نہیں بلکہ نقصان اٹھانا پڑا۔

گولیمار کے ایک شیعہ علاقے سے تعلق رکھے والا نوجوان جو سرکاری اداری میں بر سرِ روزگار تھا، کالعدم سپاہِ صحابہ کے خلاف کارروائیوں کے چکر میں اٹھا لیا گیا۔ تقریباً چھ ماہ بعد سخت ترین تشدد کے دوران ہونے والی تفتیش میں ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ ہے۔ پاکستانی انصاف حرکت میں آیا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔ جب منظرِ عام (یعنی خود سے لاپتہ ہوجانے کے بعد دوبارہ نمودار ہوا) تو دنیا بدل چکی تھی۔ گھر میں کھانے تک کو نہیں تھا۔ نوکری پر جانے کا سوچا تو پتہ چلا کہ کئی ماہ نہ جانے پر اس کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرا مگر پھر ایک دن ہمت ہار کر کچھ قرض لے کر رکشہ چلانا شروع کردیا۔ اس نوجوان کا بس ایک ہی سوال ہے کہ اگر میں بے قصور تھا تو میرے چھ ماہ جو میں نے گمشدگی میں گزارے اور اس دوران اپنا سب کچھ کھو دیا، وہ کون سا ادارہ لوٹائے گا؟

سوال دھرا کا دھرا رہ گیا کہ آخر ان گمشدگیوں سے فائدہ کسے ہوتا ہے؟ سچ یہ ہے کہ انہیں ہی جن پر الزام دھرا جاتا ہے۔ اور اس کا اندازہ ہمیں ہوگا سیاسی کارکنان کی بازیابی کے بعد ہونے والی زندگی کو دیکھ کر اور ان کی بدلی ہوئی زندگی کے معاشرے پر اثرات دیکھ کر۔

عظیم مفکر گرامچی کہتا ہے کہ دراصل یہ ریاست اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے کرتی ہے۔ اور یقیناً ایسا ہی ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ادارے ہر اصول و قانون سے ماورا ہوگئے ہیں اور اپنی بالادستی پر فخر کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر لوٹ کر آنے والوں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں تھے؟ مبینہ طور پر جبری طور پر گمشدگیوں کے پیچھے کارفرما عناصر کی نشاندہی کوئی کیوں نہیں کرتا؟

دوسرے، لاپتہ ہوکر واپس ہونے والے دوستوں کا بتانا ہے کہ ادارے مسلسل آپ کا ڈیٹا تلاش کرتے ہیں، آپ کی سوشل میڈیا ویب سائٹس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور فلاں فلاں دوست کا بھی پوچھتے ہیں۔ جب یہ سب باتیں یہ افراد واپس آکر بتاتے ہیں تو معاشرے میں مزید ہو کا عالم طاری ہوجاتا ہے کیونکہ تمام افراد کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ‘راڈار’ میں ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ بھی غائب ہونے کے بعد واپس آجائیں مگر بھلا یہ 90 دن کی مار برداشت کرنے کا حوصلہ کون رکھتا ہے؟

تیسرے، یہ کہ غائب وہ ہی ہوتے ہیں جو لوگ ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے لاپتہ ہوجانے کے بعد عوام لگ جاتے ہیں ان کو بازیاب کروانے میں اور اصل میں جو مسئلہ ظلم کا ہوتا ہے وہ وہیں رہ جاتا ہے۔ اب معاشرے کے خواص کی ساری توجہ کا مرکز ان کی بازیابی بن جاتا ہے۔ ان کے واپس آجانے کے بعد سب چپ سادھ لیتے ہیں کہ شکر کرو، دوست واپس آگئے اور اب اپنی ‘ٹون ذرا دھیمی کر لینی چاہئے’۔ گویا جو بنیادی مسئلہ تھا وہ ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ سبین محمود کو ناحق قتل کر کے حاصل کیا گیا تھا۔

بہرحال، فیصلہ عوام کا ہے وہ اس بالادستی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایک جمہوری معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں عوامی بیانیہ بالادست ہو نہ کہ ریاستی اداروں کا موقف کہ وہ جو چاہیں کہہ دیں، اسے من و عن تسلیم کر لیا جائے۔

جبری گمشدگیوں کا فائدہ بہرصورت ان ریاستی قوتوں ہی کو ہے اور اس کا نتیجہ معاشرے میں پیدا ہونے والی خاموشی کی صورت میں نکلتا ہے جو شاید ملک سے وابستہ ہر امید و خوشی کا گلا گھونٹ ڈالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).