سال رواں میں پڑھی جانےوالی کتابوں کا تعارف (فکشن)


ماہ و سال زندگی کے فطری تسلسل کو توڑ پھوڑ کر پیمائش کی ضرورت کے آگے ہتھیار ڈال دینے کی مجبوری کے علاوہ کچھ خاص اہمیت کے حامل نہیں۔ لیکن بہرحال قدروپیمائش کی کشش کچھ ایسی ہے کہ ہر گزرتا سال اپنے اختتام کے ساتھ ہی پیچھے نگاہ ڈالنے کی دعوت دیتا ہے اور ذہن تخمینے پر مجبور ہوتا ہے۔ ہر سال یہی خیال آتا ہے مشاغل کے بے ربط سلسلے کو بامقصد اور باربط بنایا جائے لیکن کم بخت یہ مقصد کا مسئلہ ایسا ہے کہ ہاتھ ہی نہیں آتا۔ یعنی مقصد کی تلاش خود ایک مہا مقصد ہی بن کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ سال شروع ہوا تو خیال یہ تھا کہ اس سال مطالعہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے لیکن یہ منصوبہ صرف تحقیقی و تدریسی کتب کی حد تک ہی کسی قدر کامیاب رہا۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی مشاغل کو منصوبے کی بیڑیاں نہ پہنائی جا سکیں اور پھر اگر بالفرض ایسا ہو بھی جاتا تو وہ مشاغل کیوں کر رہتے؟ادبی مشاغل کی حد تک اس سال تراجم کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید ایک ناول بعنوان ‘‘بکر بیتی’’اور اتالو کالوینو کا ایک اہم افسانہ بعنوان ‘‘بادشا ہ سنتا ہے’’ اجمل کمال صاحب کی نظرِ کرم کے باعث اشاعت کو پہنچے۔ اس کے علاوہ بارہ مقالات کا ایک مجموعہ ٔ تراجم بھی اپنے اختتام کو پہنچا اور اردو سائنس بورڈ کے ذریعے اشاعت کے مراحل میں ہے۔

Ken Follett

پچھلے سال کی طرح اس سال بھی عمومی دلچسپیوں کی حامل ان کتابوں کی فہرست اور دو سطری تعارف قارئین کے پیشِ خدمت ہے جو زیرِ مطالعہ رہیں۔ا س سال فکشن کی حد تک سب سے یادگار ناول چینی مصنف لیوسی شن کا ‘‘مسئلۂ اجسامِ ثلاثہ’’ (Three-Body Problem) اور انتونیا سوزان بیات کا ‘‘ قبضہ’’ (Possession) رہے۔ نان فکشن میں سب سے دلچسپ کتاب بلاشبہ جارج بُول کی ‘‘قوانینِ فکر پر تحقیق’’ (Investigations into the Laws of Thought) تھی جو تقریباً پورا سال ہی زیرِ مطالعہ رہی۔ پچھلے سال اس تعارفی سلسلے کے بعد کچھ قارئین کے تبصرےموصول ہوئے کہ فلاں کتاب کہاں سے مل سکتی ہے اور اگر ان کے پبلشر وغیرہ کا نام بھی ساتھ مل جائے تو اچھا ہو۔ کچھ دوستوں نے یہ بھی پوچھا کہ فلاں کتاب کا ترجمہ ہوا ہے اور اگر ترجمہ ہے تو اب کہاں دستیاب ہے وغیرہ وغیرہ۔زیادہ تر کا کہنا تھا کہ اگر یہ تفصیلات بھی اسی فہرست میں شامل کر دی جائیں تو بہت اچھا ہو۔یہ تبصرے حوصلہ افزا اور باعثِ مسرت تھے لیکن گزارش ہے کہ وقت کی کمی کے باعث اس غیررسمی سے سرگرمی کو رسمی تعارفِ کتب کی شکل دینا ممکن نہیں۔ پھر اقلیمِ مطالعہ میں ہم جیسے طفلانِ مکتب تو خود محترم وجاہت مسعود جیسے اساتذہ اور سیدی و مرشدی قبلہ عثمان قاضی صاحب سے اس قسم کی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے اس فہرست کو بس اسی غیررسمی طریقے سے آپ کی خدمت میں پیش کرنا ممکن ہے۔ہاں مزید تفصیلات کے لیے یقیناً خادم حاضر ہے۔

1۔‘‘ زمین کے ستون’’ (Pillars of the Earth) از کین فولیٹ: اگر آپ ان مشہور برطانوی مصنف کا صرف ایک ناول پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ یہی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار قرونِ وسطی ٰ کے ایک پادری ہے جو دنیا کا سب سے شاندار کلیسا تعمیر کرنا چاہتا ہے ۔ ایک ہزار صفحات کے ضخیم ناول پر چند لفظوں میں منفی تنقیدی رائے دینا مناسب نہیں لیکن ذاتی طور پر اس حد صفحاتی وسعت کے حامل ناول سے میری ذاتی توقعات کچھ زیادہ تھیں۔ بہرحال ناول کو پاپولر ادب کا ایک کامیاب ترین ناول مانا گیا ہے۔ اگر آپ سنجیدہ اور عرفِ عام میں ادبی فکشن کے رسیا ہیں تو یقیناً یہ ناول آپ کے لیے نہیں۔ اس صورت میں میری طرح آپ بھی کین فولٹ کا صرف یہ ایک ناول پڑھ کر انہیں دور سے سلام کر سکتے ہیں۔

Alan Lightman

2۔ ‘‘آئن سٹائن کے خواب’’ (Einstein’s Dreams) از ایلن لائٹ مین: ایک ایسا عجیب و غریب شاہکار جس کے نقش عرصہ آپ کے ذہن پر رہیں گے۔ لائٹ مین نے اپنی کہانی کو شعرو نثر کی سرحد پر بہت مہارت سے نبھایا ہے۔ کہانی کیا ہے بس یوں سمجھ لیجیے ایک خوابیدہ سلسلہ ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار آئن سٹائن ہے جو ۱۹۰۵ء میں سوئٹزرلینڈ میں اپنی نوکری کے دوران زمان و مکاں کے ان تصورات کے تخیل سے برسرِپیکار ہے جو ابھی منصۂ شہود پر آنے کے منتظر ہیں۔اس کے ہر ایک خواب میں وقت ایک نئےکردار کے طور پر سامنے آتا ہے ۔کئی زبانوں میں ترجمہ ہونے والی کتاب جو اردو میں ڈھالے جانے کی منتظر ہے۔

3۔ ‘‘باگھ’’ از عبداللہ حسین: عبداللہ حسین کا نام تو خیر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔انہیں اس وقت ٹوٹا پھوٹا پڑھا جب ذہن معنی کی پہلی پرت اتارنے پر بھی قادر نہیں ہوتا۔اس کے بعد صرف ‘‘اداس نسلیں’’ ہی ایک بارپھر کھولنا نصیب ہوا۔ان کی وفات کے بعدیاد آیا کہ انہیں ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں سو اس سال‘‘ باگھ’’ پڑھ لیا۔ دیکھیے اگلے سال کس کی باری آئے۔

4۔ ‘‘کرسیاں’’ (The Chairs) از یوجین آئیونیسکو: ایک اہم ترین الم طربیہ ڈرامہ جو کئی بار تھیٹر پر پیش کیا گیا اور ایک روایت کی تشکیل کی۔یہ ایک بوڑھے میاں بیوی کا خاکہ ہے جو کرسیوں کے گرد گھومتے پھرتے اپنے خیالات میں سرگرداں ہیں۔ خاصے کی چیز ہے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ دیکھنے سے بھی تعلق رکھتا ہے۔

eugene ionesco

5۔‘‘جزیرۂ سخنوراں’’ از غلام عباس: ایک دلچسپ طنزیہ ناولٹ جو اپنی نئی اشاعت ہی میں ہم تک پہنچا۔ آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔

6۔‘‘میری’’ (Mary) از ولادمیر نابوکوف:‘‘لولیتا’’ کے علاوہ میں نے اب تک نابوکوف کی اور کوئی چیز نہیں پڑھی تھی کہ یہ چھوٹا سا ناولٹ ہاتھ لگ گیا ۔ کہانی تو یونہی سی ہے لیکن اس لحاظ سے اہم ہے کہ نابوکوف کی اولین تخلیق ہے۔

7۔‘‘ہارون اور کہانیوں کا سمندر’’(Haroun and the Sea of Stories) از سلمان رشدی: سلمان رشدی کا نام یقیناً بہت سے نفوسِ عالیہ کو لعنت ملامت پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ کہانی بہت ہی دلچسپ ہے۔لکھی تو بچوں کے لیے گئی ہے لیکن خاص خاص بڑے بھی لطف اٹھا سکتے ہیں عجیب و غریب علامتوں کا ایک شاہکار جس میں بالخصوص ناموں کا بہت مزیدار استعمال کیا گیا ہے۔

8۔‘‘گوندنی والا تکیہ’’ از غلام عباس: کسی تعارف کی محتاج نہیں۔کتنے ہی سال بعد نئی کتابت میں نظر آئی تو ایک بار پھر پڑھی لی۔

9۔‘‘انتخاب’’ از محمد حسن عسکری: آصف فرخی صاحب کےہاتھوں حسن عسکری کے افسانوں کا انتخاب جو آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔

10۔‘‘اینڈی وئیر کی کہانیاں’’ از اینڈی وئیر: امریکی مصنف اینڈی وئیر دس سال قبل اپنی کتاب ‘‘مریخی’’(The Martian) کی وجہ سے مشہور ہوئے ۔ پھر جب اس کتاب پر مشہور فلم بنی تو ان کی شہر ت کو چار چاند لگ گئے۔ افسوس کہ کتاب فلم کے بعد ہمارے ہاتھ لگی لیکن سنا یہی تھا کہ بہ نسبت کتاب، فلم کی وسعت نہایت محدود ہے۔ دراصل کتاب سائنسی تصورات سے مالامال ہے اور امریکہ میں چھوٹے بچوں کی سائنسی تدریس کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہے۔اینڈی وئیر کا کہنا ہے کہ انہیں کئی اساتذہ کی ای میل موصول ہوئی کہ وہ ان کی کتاب کو کمرۂ جماعت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں موجود ایک سو ساٹھ گالیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔ اس وجہ سے اس سال اس کتاب کا ایک نیا ایڈیشن آیا ہے جو گالیوں سے پاک ہے اور ان کی بجائے ذرا نرم متبادلات کا استعمال کیا گیا ہے۔چونکہ فلم کی کہانی تاحال یاداشت سے محو نہیں ہوئی لہٰذا ‘‘مریخی’’ پڑھنے کی نوبت بھی اب تک نہیں آ سکی اورمغلظات کےباعث وہ بچوں کی پہنچ سے محفوظ کتابوں کی الماری میں ان کے ذرا بڑا ہونے کی منتظر ہے۔ لیکن اینڈی وئیر کی تجرباتی کہانیاں بھی دلچسپ ہیں جنہیں یہاں وہاں کی تلاش کے بعد اس سال پڑھنا نصیب ہوا۔ یہ کل درجن بھر کہانیاں ہیں جن میں میری سب سے پسندیدہ کہانی ‘‘انڈہ’‘ ہے۔ آپ اس کا ترجمہ جلد ہی “ہم سب” پر پڑھ سکیں گے۔

Andy Weir

11۔ ‘‘دانشِ احمقاں’’ (Wisdom of the Idiots) از ادریس شاہ: مختصر حکایات پر مشتمل ، نفسیاتی اسباق دیتی کہانیاں ۔ ادریس شاہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں صوفی ازم کو ایک الگ ثقافتی و نفسیاتی روایت کے طور پر مغرب میں متعارف کروانے کے لئے بہت مشہور ہوئے۔

12۔‘‘پیڈرو پیرامو’’ (Pedro Paramo) از خوان رولفو: لاطینی امریکی ادب کا وہ مشہور ترین ناولٹ جسے بورخیس نے ادب کا بہترین ناول قرار دیا۔انگریزی میں ایک سے زیادہ بار ترجمہ ہو چکا ہے۔ ‘‘بنجرمیدان’’ کے نام سے اردو ترجمہ بھی موجود ہے جو احمد مشتاق نے کیا ہے اور شہرزاد( کراچی )سے شائع ہوا ہے۔ رلفو کا کہنا تھا کہ وہ تمام زندگی اپنے ساتھ خاموشیوں کے سلسلے لے کر چلے ہیں اور اس ناول کو انہوں نے کئی بار لکھا اور تلف کیا۔ آخر کار وہ مناسب اظہار کے قابل ہوئے اور یہ شاہکار وجود میں آیا۔ ناول کا تعارف ممکن نہیں کیوں کہ پلاٹ کی دریافت بذاتِ خود ایک شدید ابہام آمیز سرگرمی ہے۔ معنی کو ذرا سا چھونے کے لیے بھی کم از کم دو قرأتیں درکار ہیں۔

13۔‘‘نصف النہار کی سیاہی’’ (Darkness at Noon) از آرتھر کوئسلر: بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ایک ایسے انقلابی کی کہانی جو اب اپنی انقلاب پسند پارٹی سے غداری کے الزم میں قیدخانے میں نفسیاتی تشدد کا شکار ہے۔ کوئسلر کے ناول اور مضامین کمیونسٹ ادب میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1983ء میں لندن میں خودکشی کی۔جرمن زبان میں لکھے گئے اس ناول کا اصل مسودہ تو تاحال گم ہے لیکن انگریزی ترجمہ ہی اس کی شہرت کا سبب بنا۔

14۔‘‘ہزاروں کُونجیں’’(Thousand Cranes) از یاسوناری کاواباتا: کاواباتا وہ پہلے جاپانی مصنف ہیں جنہیں ۱۹۶۸ء میں نوبل انعام ملا۔ روایتی اور جدید جاپانی تہذیب کے سنگم پر ڈولتی ایک دلچسپ کہانی جس کی بُنت میں روایتی قہوہ نوشی کی ثقافت اور رکھ رکھاؤ کا ایک اہم کردار ہے۔ ہر ایک سطر معنی سے بھرپور ہے۔ ترجمے کے باعث یقیناً ایک نہایت اجنبی ثقافت کو اپنے اندر سمونے کے باعث بہت سے سمجھوتے بھی ہوئے ہوں گے۔

15۔‘‘ عشق کے چالیس اصول’’ (The Forty Rules of Love) از الف شفق: اب تک یہ ناول شاید ہی کسی نے نہ پڑھا ہو تو اس سال ہم نے بھی پڑھ لیا۔ رومی اور شمس تبریز کے گرد گھومتی ایک کہانی جہاں جدید اپنی دریافت کے لئے قدیم کا سہارا لیتا ہے۔

16۔‘‘مسئلۂ اجسامِ ثلاثہ’’ (Three-Body Problem) از لیو سی شن: لیوسی شن کا یہ ناول سائنس فکشن کے شوقین حضرات کے لئے تو یقیناً ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں لیکن اگر آپ سائنس فکشن نہیں پڑھتے تو لیوسی شن کے ذریعے اس صنف کی محبت میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ یہ تین ناولوں پر مشتمل ‘‘تاریخ ِ ارضی کی یادیں’’ نامی ایک سلسلے کا پہلا حصہ ہے۔ناول کی وسعت حیرت انگیز ہے اور سائنسی نظریات کا اطلاق حیرت ناک حد تک واضح منطقی مغالطوں سے پاک ہے،جیسا کہ عموماً سائنس فکشن میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ہاں ذرا ٹھٹک کر بغور دیکھنے پر رائج تھیوری کی سطح پر انہیں غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ لیوسی شن کے پاس سنانے کے لئے ایک نہایت طویل داستان ہے لہٰذا چار سو صفحات میں بھی ادبی منظر نگاری اور کرداروں کی تشکیل کافی حد تک محدود ہے۔ یہ شاید اس ناول کا ایک واحد کمزور پہلو ہے لیکن کہانی اس حد تک جاندار ہے کہ ادبی چاشنی پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ترجمے کے باعث ایسا ہوا ہو۔ پس منظر چین کا ثقافتی انقلاب ہے۔ایک خلائی مخلوق زمین سے بھیجے گئے کچھ سگنل پکڑ لیتی ہے اور اب زمین پر قبضے کی خواہش مند ہے۔ زمین پر طبقات اس لڑائی میں مشغول ہیں کہ قبضے میں اس اجنبی مخلوق کی مدد کی جائے یا نہیں۔وہ مخلوق کیوں کر اپنے نظریات کو بیچنے میں کامیاب ہو رہی ہے؟ ایک کمپیوٹر کھیل کے ذریعے جو اجسامِ ثلاثہ کے میکانی مسئلے کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے اور اب زمین پر اجسام ثلاثہ کی سوسائٹی تشکیل دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

17۔‘‘ قبضہ’’ (Possession) از انتونیا سوزان بیات: اس سال پڑھا جانے والے ایک اور یادگار ناول ۔ دو نوجوان محققین کی کہانی جو دو وکٹورین شعراء کی باہمی خط وکتابت پر تحقیق کر رہے ہیں۔ صرف ان قارئین کے لئے جو پلاٹ سے زیادہ ادبی چاشنی کے قتیل ہیں۔

18۔‘‘ایک مناسب بَر’’(A Suitable Boy) از وکرم سیٹھ: ضخیم ناولوں کا شیدائی ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں یہ ناول میرا دل چھونے میں ناکام رہا۔ کچھ مناظر نہایت دلچسپ اور چند کردار نہایت منفر د ہیں۔ہندوستانی اشرافیہ کی ثقافت کے پس منظر میں مغربی قارئین کے لئے دلچسپی کے بہت سامان ہیں۔

19۔‘‘خروجِ مغرب ’’(Exit West) ازمحسن حامد: محسن حامد کا نیا ناول مشرق و مغرب کی کشمکش پر ان کے جاری مطالعے کا ایک اہم پڑاؤ محسوس ہوتا ہے۔ نادیہ اور سعید کے کردارگو ہمارے ارد گرد ہی بکھرے نظر آتے ہیں، لیکن ان دونوں کا بندھن یقیناً منفرد ہے۔ ان کی ہجرت کی کہانی میں ایک لطیف سا طلسمی رنگ بھی ہے۔ ناول کی شہرت بلاشبہ باجواز ہے۔

20۔‘‘ہماری بانوئے مقدس ایلس بھٹی ’’ (Our Lady of Alice Bhatti) از محمد حنیف: فرنچ کالونی کی ایلس بھٹی اور کراچی پولیس کے ‘‘جنٹلمین اسکواڈ’‘ کے ٹیڈی جیسے دو ناقابلِ فراموش کردار انگریزی ادب کو دینے پر محمد حنیف بلاشبہ  اس مخصوص جہت کے ادب میں ایک مستقل جگہ پانے کے حق دار ہیں۔مجھے ناول سے بس اس اتنی شکایت ہے کہ وہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کیا یہ اختصار بھی ان مخفف زندگیوں ہی کا کوئی استعارہ ہے؟

21۔‘‘ بنجر زمینیں’’ (The Waste Lands) از اسٹیفن کنگ: بچپن کی لت کم ہی جاتی ہے۔ اسٹیفن کنگ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بس صرف یہی ناول نہیں پڑھا تھا سو اس سال اس لیے پڑھ لیا کہ عنقریب آنے والی ٹی وی فلم سے موازنہ کیا جا سکے۔

22۔ ‘‘چڑھتے ایشیا میں امیرکبیر ہونے کا طریقہ’’ (How to Get Filthy Rich in Rising Asia) از محسن حامد: ایک دلچسپ ناول جس کی تشکیل و توضیع بے حد منفرد ہے۔یہ ایک غریب لڑکے کی اپنے گاؤں کی کچی آبادی سے ایک دیوقامت کاروباری شخصیت بننے کی کہانی ہے۔ طنز کی لطیف کاٹ برابر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ناول کو خود تدریسی کی خاطر شائع کیےجانے والے کاروباری کتابچوں کی طرز پر وضع کیا گیا ہے جو دلچسپی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔

23۔‘‘اندھے آدمی کا باغ’’ (The Blind Man’s Garden) از ندیم اسلم: ایک ایسا ناول جس کی شہرت اس کے معیار سے بڑھ کر ہے۔ ندیم اسلم کو پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہ اس قاری کے لیے لکھ ہی نہیں رہے جس کی تہذیب و ثقافت ان کے ناول کا پس منظر ہے۔ یقیناً یہ مسئلہ ان کی تخلیقی کاوش کا نہیں بلکہ اس قاری کا ہے لیکن بہرحال یہ زاویہ دلچسپ ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے آپ ان کے کرداروں کے ساتھ توکھڑے ہو سکتے ہیں لیکن اندر اترنے کے لئے خود سے باہر نکلنے پر مجبور نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک عجیب و غریب سا نفسیاتی مسئلہ ہے جو شاید ان کی خوبصورت تخلیق میں تصنع کےپہلو سے جڑا ہے۔ناول کے مطالعے میں کم ازکم چند ایسے لمحات آنا تو لازمی ہے جہاں ناول اور حقیقت آپس میں گڈمڈ ہو جائے اور قاری احساس کی سطح پر کردار کے زاویۂ نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جائے۔ افسوس کہ یہ تجربہ ممکن نہ ہوا۔

24۔‘‘پومپیائی’’(Pompeii) از رابرٹ ہیرس: اس ناول کا تعارف تو وسی بابا کے نام لکھے گئے ایک مضمون میں پہلے ہی ہو چکا ہے۔ دلچسپ ناول ہے اور اس اعتبار سے خاص بھی کہ ایک اہم نفسیاتی تحقیق میں استعمال ہوا ہے۔کہانی کا پس منظر پومپیائی کا سانحہ ہے۔کردار کچھ خاص گہرائی کے حامل نہیں، بالکل ویسے ہی ہیں جیسے فارمولا ناولوں میں ہوتے ہیں۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments