مینا کماری: یہ روح بہت حسین ہے اسے زمین پر مت اتاریے گا


( نوٹ: یہ ایک تاثراتی تحریر ہے۔ نجانے کیوں لکھی۔ ایک گھٹن ہے جس سے کاغذ پر اتارا ہے۔ ثبات اور بے ثباتی کا گھٹن، بھٹکی ہوئی روحوں کی تلاش)

اگر آپ کی آواز، شاعری، زندگی اور موت کی کتھا میرے دل و دماغ کو جکڑ کے نہ رکھتی تو شاید میں آدھے گھنٹے تک مسلسل ٹریڈ مل پر نہ دوڑ رہا ہوتا۔
بعد میں خیال آیا کہ میں ورزش نہیں بلکہ یا تو آپ کی یادوں کے سنگ دوڑ رہا تھا یا ان رشتوں، لمحوں اور رویوں سے بھاگ رہا تھا جنہوں نے آپ کی روح اور جسم کو بار بار دفنایا۔
میں اگر ٹریڈ مل پر پچاس ہزار کلومیٹر بھی دوڑتا رہتا تو زمیں پر ایک سینٹی میٹر کا فاصلہ بھی طے نہ کر پاتا۔
آپ بھی تو چالیس سال تک زندگی کی ٹریڈ مل پر دوڑتی رہی۔ لیکن درد و الم ٹریڈ مل کی طرح ساکت اور مستقل رہے۔

کسی بھی بچے کی پہلی آرامگاہ ماں کی ممتا سے بھری ہوئی گود ہوتی ہے اور پھر پنگھوڑا۔
مگر آپ کی پہلی آرامگاہ بمبئی کے یتیم خانے کی سیڑھیاں تھیں۔
یتیم خانے کی سیڑھیوں پر آپ کی پہلی چیخ تمام عمر آپ کا پیچھا کرتی رہی۔
آپ ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیم ہونے کی جو شناخت دی گئی اس کے ساتھ آپ پلی بڑھی اور مری۔
جس باپ نے مالی تنگ دستی کی وجہ سے آپ کو یتیم خانے کے سامنے چھوڑ دیا تھا اس کو پھر نہ صرف آپ نے پالا بلکہ ان کے وہ خواب پورے کیے جنہیں وہ ساری زندگی ہارمونیم کے سروں میں پروتا رہا۔

آپ کو تین ناموں سے پکارا گیا۔
مہ جبین۔ مینا کُماری۔ ناز
لیکن آپ نے ناموں سے ماورا ایک آرٹسٹ کی طرح زندگی بسر کی۔
گلوکارہ مہ جبین، اداکارہ مینا کُماری اور شاعرہ ناز۔

دھتکار، ٹوٹتے پھوٹتے رشتے، بے بسی، محبوب سے منت سماجت، مظلومیت کے جو کردار آپ نے فلموں میں ادا کیے مجھے وہ اداکاری نہیں لگی بلکہ آپ کی حقیقی زندگی کے کردار تھے۔
دلیپ صاحب کو ٹریجڈی کنگ اور آپ کو ٹریجڈی کوئین کا خطاب دیا گیا لیکن دلیپ صاحب سکرین پر ہی ٹریجڈی کنگ تھے اور آپ کی زندگی المیوں کے جالے میں یوں قید تھی کہ آف سکرین ہوکر بھی ٹریجڈی کوئین رہی۔

بچے کی پہلی محبت ماں باپ اور والدین کا پہلا عشق بچہ ہوتا ہے مگر آپ کے اس احساس کو تو یتیم خانے کی سیڑھیوں پر مصلوب کر دیا گیا تھا۔
یہی محرومی تھی جو زندگی بھر آپ کے خون میں دوڑتی رہی اور آپ کو نچوڑتی رہی۔

عجیب بات ہے کہ جس محبت سے آپ یتیم خانے کی سیڑھیوں پر محروم ہوئی تھی، وہ ختم تب ہوئی جب آپ کار کے حادثے کی وجہ سے بسترعلالت پر پڑی تھیں۔
ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق آپ کے ہاتھ کاٹنے کی خبر سن کر جب سبھی ڈائریکٹروں نے آپ کو فلموں سے نکال دیا تو اس وقت ایک ہی ڈائریکٹر کمال امروہی صاحب آپ کی عیادت کرنے آئے تھے۔

یہی عیادت پھر محبت میں بدل گئی۔
زندگی کے حسین دن شروع ہوئے۔ رات کو فون پر بات شروع ہوتی اورصبح سویرے تک چلتی رہتی۔
خفیہ ملاقاتیں خفیہ شادی میں بدل گئی۔

باپ کو شادی کا پتہ چلا اور اس سے آپ کی محنت سے جلتے ہوئے چولھے کو بجھنے کا خوف لاحق ہوا۔
اس وقت آپ کے دل پر کیا گزری ہوگی جب رات کو گھر لوٹتے وقت اپنے گھر کا دروازہ بند ہوتے پایا۔
جس باپ نے آپ کو یتیم خانے کے سامنے چھوڑ دیا تھا اس وقت یتیم خانہ بند تھا اور آج اسی باپ نے آپ پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا تھا۔
لیکن کمال صاحب کا در کھلا تھا لیکن چند سال بعد جب رشتے میں دراڑ آئی اور وہ در بھی ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
اگرچہ سماجی رشتہ ٹوٹ چکا تھا مگر محبت زندہ رہی۔

آپ ہی کا شعر ہے،
ہم سفر کوئی گر ملے بھی کہیں
دونوں چلتے رہے تنہا تنہا
محبت اور تنہائی کا روگ۔

ڈاکٹر نے برانڈی کا ایک پیگ تجویز کیا اور آپ بوتل پہ بوتل انڈیل رہی تھیں۔
آپ کو پتہ ہے کہا جاتا ہے کہ مینا کُماری شراب نہیں شراب مینا کُماری کو پی رہی تھی۔

کتنا تکلیف دہ منظر ہوا ہوگا جب بستر مرگ پر آپ کے سرہانے بیٹھے کمال صاحب کو کہا گیا تھا کہ یہ بچنے والی نہیں کیا ڈرپ وغیرہ نکال دیں؟
جو محبت بسترعلالت سے شروع ہوئی تھی اس نے بسترمرگ پر دم توڑ دیا۔

ٹریڈ مل پر دوڑتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کچھ روحیں اتنی خوبصورت ہوتی ہیں کہ انہیں جسم کے قالب میں نہیں ڈھلنا چاہیے۔
انہیں بس فضا میں نظر نہ آنے والے تتلیوں کی طرح اُڑتے رہنا چاہیے۔

کمال صاحب نے پاکیزہ میں آپ کے پاؤں کے لئے ایک ڈائیلاگ لکھا تھا۔
”آپ کے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں۔ انہیں زمین پر مت اتاریئے گا میلے ہوجائیں گے“

کمال صاحب عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑے تھے کاش آپ کی پیدائش سے قبل ایک خط لکھ دیتے۔
”یہ روح بہت حسین ہے اسے زمین پر مت اتاریے گا۔ “

عبدالحئی کاکڑ مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar