صدر ٹرمپ کا نئے سال کا ٹویٹ اور ہم


نئے سال کی پہلی مایوس کن خبر یہ ہے، کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریباً ایک سال وائٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد بھی ویسے ہی ہیں، جیسا کہ وہ امریکا کی صدارت سنبھالنے سے پہلے تھے۔ محترم ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز ہی میں پاکستان کو ٹویٹر پر جاری ایک بیان کے ذریعے ہدف تنقید بنایا ہے۔

صدر ٹرمپ کے ٹوِیٹ کا متن چونکہ پوری دُنیا بالخصوص تمام پاکستانیوں کو اب تک ذہن نشین ہوگیا ہوگا، اس لیے میں اسے یہاں نقل کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ مختصراً صرف اتنا بیان کرنا کافی ہوگا کہ صدر ٹرمپ نے اسلام آباد پر دھوکا دہی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان نے جواباً اس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا، جس کا نمونہ ہمیں صدر ٹرمپ کے ٹویٹر پر جاری کردہ بیان سے ملتا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں مقیم امریکی سفیر کو طلب کیا اور صدر ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی۔ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس 2 جنوری کو طلب کیا گیا اجلاس نے صدر ٹرمپ کے بیان کو incomprehensible یا سمجھ سے بالاتر قرار دیا ہے۔

نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کی جانے والی پریس ریلیز کے مطابق، اسلام آباد نے کہا ہے کہ افغانستان میں درپیش ’اجتماعی ناکامی‘  کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اُدھر چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے 2 جنوری کو ایک پریس بریفنگ میں، صدر ٹرمپ کے بیان کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستانی کی جانب سے کی جانے والی مسلسل کوششوں کو سراہتے ہوئے پاکستان اور چین کے درمیان عالمی امن اور سکیورٹی کے لیے باہمی تعاون کا بھی حوالہ دیا۔

اس امر سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، کہ صدر ٹرمپ کا ٹویٹر کے ذریعہ پاکستان مخالف بیان جاری کرنے کا انداز ان کے منصب اور سفارتی آداب کے منافی ہے، لیکن صدر ٹرمپ کے ذاتی، کاروباری اور سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے، اُن کا بیان کوئی اچمبھے کی بات نہیں لگتی۔ جو بات پاکستان کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ بیان امریکی صدر یا سادہ الفاظ میں کہیں تو امریکی حکومت کی جانب سے آیا ہے۔ پاکستان نے جواب میں اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہ کر کے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ چینی ترجمان کا بیان بھی بروقت ہے جس سے پاکستان کے بیانہ کو تقویت ملے گی۔

یہ معاملہ صرف صدر ٹرمپ اور ان کے لاابالی پن تک محدود ہوتا تو اسے نظرانداز کر دینا ہی بہتر تھا۔ بدقسمتی سے یہ ایک سنجیدہ سفارتی چیلنج ہے، جو آگے بڑھ کر ملکی سالمیت کے لیے خطرات بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ہم یادداشت پر ضرور دیں تو سابق امریکی صدر اوباما نے امریکی کانگریس سے جنوری 2016ء میں کیے جانے والے آخری خطاب میں پاکستان کا نام ان ممالک کے ساتھ لیا تھا، جہاں مستقبل میں بےامنی، عدم استحکام اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں قائم ہونے کا خطرہ ہے۔

اس پس منظر میں دیکھیں تو صدر ٹرمپ کے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سے پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں محض شدت آئی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پر امریکی دباؤ میں شدت بھی محض صدر ٹرمپ کے نئے سال پر جاری ٹویٹ سے نہیں آئی۔ پاکستان میں بین الاقوامی امور اور پاک امریکا تعلقات پر لکھنے والے تسلسل سے خبردار کررہے تھے کہ امریکا پاکستان پر دباؤ بتدریج بڑھاتا جائے گا اور ایسا علاقائی اور بین الاقوامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے پاکستان کو سبق سکھایا جاسکے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے اپنے چار ہمسایہ ممالک میں سے دو، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات انتہائی خراب، تیسرے یعنی ایران کے ساتھ سرد ہیں۔ صرف  چین ہی ایک ایسا ہمسایہ ہے، جس کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں۔

جب کسی  جمہوری ملک کو ایسی صورت احوال کا سامنا ہو، تو سیاسی قیادت بشمول حزب اقتدار اور اختلاف اور دانشور سر جوڑ کے بیٹھتے ہیں اور امن کے رائج بین الاقوامی اصولوں سے مطابقت رکھتا، ایک ایسے قومی بیانیے کو فروغ دیتے ہیں جو ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کو اس طرح نمٹنے میں مدد دے کہ کسی بھی عالمی طاقت یہ اس کی پراکسی وار سے حتی الامکان بچا جاسکے۔

ہمارے ملک میں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ بعض مذہبی سیاسی جماعتیں ایسا عمل جس کو بین الاقوامی طور پر دہشت گردی تسلیم کیا جاتا ہے، میں جہاد کا پہلو تلاش کرتی ہیں؛ بعض سیاسی جماعتیں ابھی یہ طے کرنے میں مشغول ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی جانب سے سرکاری طور پر لڑی جانے والی جنگ جس میں لاکھوں پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں، ہماری جنگ ہے بھی کہ نہیں۔ اعلٰی حکومتی عہدیدار جن میں ایک سابق وفاقی اور موجودہ صوبائی وزیر بھی شامل ہیں، اپنے مسلمان ہونے کے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک پارٹی کے اندرونی خلفشار کے باعث اس کے دو اہم عہدیدار جو کہ سگے بھائی بھی ہیں، سعودی عرب جا کے اپنے اختلافات کا حل کے لیے ثالثی تلاش کررہے ہیں۔

ایسے حالات میں ملکی سلامتی کو درپیش علاقائی اور بین الاقوامی چلینجوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں یا تو سیاسی مدبر شیخ رشید کے افکار سے استفادہ کرنا پڑتا ہے، یا کوئی مذہبی عالم محمد بن قاسم کا حوالہ دے کر ہمارا خون گرماتا ہے۔ بعض متقی ہمیں ہاتھی اور ابابیل کا قصہ سنا کر حوصلہ دیتے ہیں۔ معاف کیجیے گا، میں ایٹم بم تو بھول ہی گیا تھا۔ ہمیں بعض سنجیدہ مبصرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایٹم بم کے ہوتے ہوئے امریکا سمیت کوئی ملک، ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ مبصرین ہمیں یہ نہیں بتاتے، کہ یہ مہلک ہتھیار کس طرح دشمن کے علاقے تک پہنچے گا۔ عین ممکن ہے اس صورت احوال میں ابابیل ہی ہمیں فضائی مدد فراہم کرے۔ سو یہ وقت پاک امریکہ تعلقات پر اجتماعی سوچ بچار کا نہیں، بلکہ جائے نماز ڈھونڈنے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).