موبائیل کی گھریلو وائرل ویڈیوز یا اخلاق کا جنازہ


دیکھو شاندانہ تمہیں پتہ ہے میرا تم سے کتنا عرصہ ہوا ہے چیٹ کرتے ہوئے تم نے مجھے اب تک کوئی تصویر نہیں بھیجی آج اگر تم نے تصویر نہیں بھیجی تو میں ناراض ہو جاﺅں گا اور مزید تم سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا تمہیں میری باتوں پر بھروسہ نہیں ہے اور یوں ان باتوں میں آکر شاندانہ اسے اپنی تصویر بھیج دیتی ہے پھر ایک دن فون نمبر کا تقاضا کیا جاتا ہے جس میں پیار کی تاویلیں دی جاتی ہیں فون کے بعد ملنے کا کہا جاتا ہے اور اس وقت بھی اسے لڑکا اس انداز سے باتیں کرتا ہے کہ لڑکی اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انتہائی قدم اٹھا لیتی ہے اور مقررہ وقت پر اپنے محبوب کے ٹھکانے پہنج جاتی ہے جہاں اس کے محبوب نے سب انتظام کیا ہوتا ہے پھر وہ کچھ ہوتا ہے جس پر انسانیت کی روح کانپ جاتی ہے وہ جان سے پیارا محبوب اسے بار بار بلانے پر مجبور کرتا ہے اور ایک دن شاندانہ کی جانب سے انکار ہوتا ہے تو جان سے پیارے محبوب کا ایک نیا چہرہ سامنے آتا ہے شاندانہ کو کہا جا تا ہے کہ تمہاری مجھ سے ملاقات کی ویڈیو میرے پاس ہے اگر تم نہیں آئی تو اسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کردوں گا شاندانہ کے پاﺅں تلے سے زمین نکل جاتی ہے او ر یوں بلیک میلنگ سے شاندانہ نہ جیتی ہے اور نہ مرتی ہے اور اپنی قسمت کو کوستی ہے جب منحوس لمحے اس کمینے سے ملاقات ہوتی ہے، یہ کہانی صرف شاندانہ کی نہیں ہر اس لڑکی کی ہے جو اندھا اعتماد کرکے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتی ہیں اور پھر یوں بلیک میل ہوتی رہتی ہے اور کچھ لڑکیاں اپنے نام نہاد محبوب کی بات نہیں مانتی اور یوں اس کی ویڈیو وائرل ہوکر یو ٹیوب اور تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں جو اسے خودکشی پر مجبور کردیتی ہے ۔

پہلادوست یار دیکھو کیا زبردست ویڈیو ہے کیا مست لڑکیاں ہیں اور ان کا ڈانس اف اللہ سونے پر سہاگہ دوسرا دوست حیرانی سے جلدی سے مجھے دکھادو، اور یوں وہ دونوں ویڈیو دیکھنے میں محو ہوجاتے ہیں اور آپس میں ویڈیو پر بات کرتے ہیں پہلا دوست تم یہ نایاب ویڈیو لاتے کہاں سے ہو دوسرا دوست مانتے تو ہو ناں، پہلا دوست آپ کا تو کوئی ثانی نہیں ہے اب بتا بھی دو، اچھا اچھا بتاتا ہوں وہ ہماری گلی کے نکڑ پر جو نیٹ کیفے ہے وہ میرا دوست بنا ہے اس سے یہ گھریلو ویڈیوز ملتی ہیں وہ انٹرنیٹ سے ڈاﺅن لوڈ کرتا ہے، اور دونوں پھر انہماک سے ویڈیو دیکھنے میں مگن ہوجاتے ہیں ۔۔۔

یہ کہانیاں روزمرہ معاشرے میں عام ہیں اس میں صرف کردار بدل جاتے ہیں کہانی وہی رہتی ہے جب سے جگہ مینول کیمروں کی بجائے ڈیجیٹل کیمروں اور پھرکیمرے کے موبائیل نے لی ہے تب سے تصاویر اور ویڈیوز زیادہ شئیر ہونے لگے ہیں جس میں پاکستان سے بھی لاکھوں کی تعداد میں ویڈیوز اور تصاویریں اپ لوڈ ہورہی ہیں اگر دیکھا جائے تو موبائل فون سے ذاتی نوعیت کی تصاویر لینا اور ویڈیو بنانا معمول کی بات ہے اور ضرورت کے وقت انہیں ڈیلیٹ (DELETE) بھی کردیا جاتا ہے مگر یہ تصاویر اور ویڈیو موبائیل فونز میں موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی طور ڈیلیٹ نہیں ہوتے، جب کمپیوٹر اتنا عام نہیں تھا تو لوگ تصاویر مینول کیمروں پر لیا کرتے تھے جس پر کافی وقت لگتا تھا مگر ٹیکنالوجی کی تیزی کے ساتھ ڈیجیٹل فوٹوگرافی کا دور شروع ہوا اور فوٹوگرافی کے شوقین لوگوں کے لئے یہ کسی نعمت سے کم نہیں تھااور لوگ تصاویر لے کر اسے کمپیوٹر میں ڈالنے لگے جس میں خاندان کی تصاویریں بھی آسانی سے بننے لگی جو خواتین تصاویر بنانے میں تردد سے کام لیتی تھیں انہوں نے بھی تصاویریں نکالنی شروع کردیں۔ پہلے شادی بیاہ کی ریکارڈنگ کی جاتی۔ اسی طرح شادی کی تصاویریں لینے کے لئے بھی ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی۔ اب بھی شہروں میں شادیوں کی ویڈیو بنائی جاتی ہیں مایوں، نکاح سے لیکر بارات، کھانے اور پھر دلہا دلہن کا فوٹو اسیشن ایک لازمی عنصر بن گیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بغیر شادی ہی نامکمل تصور کی جاتی ہے اس کے لئے خاص بجٹ مختص کیا جاتا ہے، مینوئیل کیمرے سے بات نکل کر جب ڈیجیٹل کیمرہ اور پھر کیمرے کے موبائیل تک بات آئی تو اس کے نقصانات بھی سامنے نظر آنا شروع ہوئے لوگوں نے خاندان کی اور اپنی سلیفیاں نکالنی شروع کردی اور پھر اسے اپنے کمپیوٹر میں ڈالنے لگے ہارڈ ڈسک تصاویر اور ویڈیوز سے بھرنے لگے جب پی ون کا زمانہ گیا تو لوگوں نے اپنے کمپیوٹر فروخت کرنے شروع کردیئے پی ٹو لئے،پی تھری کے بعد پی فور لیا گیا اور پرانے کمپیوٹر فروخت کر لئے گئے جن لوگوں نے اپنے کمپیوٹر کے ساتھ ہارڈ ڈسک بھی فروخت کئے اپنا ڈیٹا نکال کر دوسرے ہارڈ ڈسک میں ڈالا اور پرانے کو فروخت کر لیا گیا اور پھر جب اسی پرانے ہارڈ ڈسک کو فارمیٹ کرنے کے بعد بھی ریکوری سافٹ وئیر سے گزارا گیا تو پرانا ڈیٹا سامنے آگیااور یوں وہ ڈیٹا وہ تصاویر وہ ویڈیوز انٹرنیٹ کی زینت بننے لگے نادان لڑکیوں نے اپنی تصاویر میسنجر پر اپنے آن لائن دوستوں کو بھیجنی شروع کردی اور وہ تصاویر ای میل سے نکل کر انٹرنیٹ پر چھانے لگی تب خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور یوں حوا زادیاں اپنے یاروں کے ہاتھوں لٹنے لگی اور بلیک میل ہونے لگیں پھر روالپنڈی کے نیٹ کیفے کا واقع رونما ہوا جو لوگوں کے سمجھانے کے لئے کافی تھا مگر عوام کے ہاتھ موبائل ٹیکنالوجی لگ گئی اور کیمرے والے موبائیل کے ساتھ میموری کارڈ آگیا جو انسانی اقداروں کو روند گیا حوا زادے اور حوا زادیوں نے اپنی محبتوں کو نیلام کرنے کے کوئی مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا کاکروچوں اور سائے سے ڈرنے والی لڑکیاں اکیلے میں لڑکوں سے ملنے لگیں نائیٹ پیکجز کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے اور یوں یوٹیوب اور دیگر میڈیا کا پیٹ بھرنے لگا موبائل پر لی گئی تصاویریں اور کارنامے اپ لوڈ ہونے لگ گئے کسی سے موبائیل چوری ہوا تو گھر کی تصاویر اور ویڈیوز لیک ہو کر سربازار رسوائی کا باعث بنے۔

انہی تصاویر کی وجہ سے قتل کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے جن میں موبائیل سے لی گئی تصاویر ہی قتل کی وجہ گردانی گئی۔ دو سال پہلے پشاور میں والد نے بازار میں میں کسی دوست کے موبائل میں اپنی بیٹی کی غیر اخلاقی حرکات والی ویڈیو دیکھی جس کو اس کے دوست نے یہ کہہ کر دکھائی تھی کہ نئی ویڈیو آئی ہے ذرا دیکھ تو لو کیا خوبصورت ویڈیو ہے، الفاظ کچھ اور تھے جو یہاں لکھے نہیں جاسکتے باپ نے جب ویڈیو میں اپنی بیٹی کو دیکھا تو طیش میں آکر اپنی بیٹی، بیوی اور اس لڑکے کا پتہ معلوم کرکے اسے قتل کر دیا، کیوں کہ لڑکے نے موبائیل سے سارے واقعے کی ریکارڈنگ کی تھی اس طرح بہت سے واقعات ہیں جس میں گلگت چلاس میں دو بہنوں کو اپنے ہی گھر میں بارش سے لطف اندوز ہونے کی وڈیو عام ہونے پر قتل کر نے کا واقعہ بھی شامل ہے جس میں دونوں لڑکیوں کے سوتیلے بھائی نے اپنے چار دوستوں کی مدد سے انہیں اور والدہ کو گولیاں مار دیں تھیں پانچ نقاب پوش افراد ریٹائرڈ پولیس افسر رحمت نبی کے گھر میں داخل ہوئے تھے اور فائرنگ شروع کر دی تھی جس کے نتیجے میں نبی کی بیوی، پندرہ اور سولہ سالہ دو بیٹیاں ہلاک ہو گئیں پولیس کے مطابق، اس واردات کا محرک ایک وڈیو تھی جو موبائل فونز پر پھیلی تھی وڈیو میں دونوں بہنیں اپنے بنگلے کے صحن میں بارش کے دوران ہلا گلا کرتی نظر آئیں۔ یہ وڈیو چھ مہینے پہلے ریکارڈ کی گئی تھی اور ممکنہ طور پر چارمہینے بعد دوست احباب کے ذریعے پورے علاقے میں پھیل گئی پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے سوتیلے بھائی نے اس وڈیو کو خاندان کی بدنامی سمجھا اور پھر خاندان کا نام بچانے کے لیے دونوں لڑکیوں کو قتل کر دیا۔اسی طرح بہت سے واقعات ہیں جس میں لڑکیوں کو بلیک میل کیا گیا،

گرلز سکول اور گرلز کالجز میں پروگراموں کی ریکارڈنگ ہوئی خاندان میں شادیوں میں موبائیل فون سے ریکارڈنگ ہوئی۔ جانے یا انجانے میں وہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا کی زینت بنی، اگر آج ہم گاﺅں یا شہروں میں جابجا دکانیں دیکھیں جن میں موبائیل میں گانے اور فلمیں ڈالی جاتی ہیں وہ مہارت سے سارا ڈیٹااپنے کمپیوٹر میں ڈال لیتے ہیں بعد میں وہی ڈیٹا مارکیٹ میں نئے مال کے ساتھ موبائل فونز میں گردش کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں چھین لیتا ہے، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان کے پروفیسر کا واقعہ بھی یہاں لازمی ہے جب اس نے اپنی سٹوڈنٹ کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتوں کی ریکارڈنگ کی اور پھر وہ کمپیوٹر فروخت کر گیا لیکن ویڈیو وائرل ہوکر استاد اور شاگرد کے پیشے کو بدنام کر گئی اب بھی آپ گوگل میں یوٹیوب یا دیگر ویڈیو سائیٹ میں پاکستانی ویڈیو ز لکھ دی ںآپ کے سامنے اخلاقیات کا جنازہ سامنے آجائے گا اپ کے پیروں تلے زمین نکل جائے گی جب خاندانی ویڈیو ز اپ کا منہ چڑا رہی ہونگی جس میں ان ویڈیو ز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہیں جو اخلاق کے دائرے سے باہر ہیں۔

بہت سی ویڈیوز ان موبائل فونز کی ہیں جن کو بڑی گنجائش کا کارڈ خریدنے کی غرض سے فروخت کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ تو اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے کہ اس کارڈ میں ان کا کتنا قیمتی ڈیٹا موجود ہے جو اہم ڈاکیومینٹ یا فیملی ویڈیوز اور تصاویر بھی ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ کارڈ فارمیٹ کرنے کے بعد یہ خیال کرتے ہیں کہ اب کارڈ میں ان کی کوئی قیمتی چیز موجود نہیں۔حالانکہ اس وقت مارکیٹ میں ایسے سافٹ وئیرز موجود ہیں جن سے فارمیٹ شدہ ڈیٹا باآسانی دوبارہ واپس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان تصاویر کو حاصل کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیا جاتاہے لہٰذا موبائل یا میموری کارڈ استعمال کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھیں جو کہ گم یا تبدیل کرنے کی صورت میں آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔بالخصوص فیملی کی تصاویر کو موبائل یا میموری کارڈ میں محفوظ کرنے سے اجتناب کریں۔بہتر تو یہ ہے کہ میموری کارڈ کو فروخت کرنے کے بجائے اپنے پاس ہی محفوظ کر لیں یا پھرمیموری کارڈ کو توڑ دیں اور اپنے بچوں خاص کر بچیوں کو کیمرے والے موبائیل دینے سے اجتناب کریں کیونکہ زیادہ ترویڈیوز گھر کے موبائیل فونز سے بنائی جاتی ہیں دوسری اور اہم بات کبھی بھی ہارڈ ڈسک، میموری کارڈ فروخت نہ کریں نہ ہی کسی دکان سے موبائل میں گانے اور فلمیں ڈالا کریں تب ہی اس سے بچا جاسکتا ہے۔ حفاظتی تدابیر ہی اس کا واحد علاج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).