آخر ان گھٹنوں کا کیا کریں؟


آرٹ بکوالڈ 1925 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 2007 میں ہوا۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں سیاسی طنز لکھتے تھے اور کے دور عروج میں ان کا کالم ساڑھے پانچ سو اخبارات میں سنڈیکیٹ کے ذریعے شائع ہوتا تھا۔ ان کو ان طنزیہ کالموں پر امریکہ میں صحافت کا سب سے بڑا ایوارڈ پلٹزر پرائز ملا۔ ان کو گزشتہ صدی کے طنز نگار کالم نگاروں میں ایک بہت بڑا نام مانا جاتا ہے۔

بکوالڈ اپنے سیاسی طنزیہ کالم میں کچھ سیاسی و غیر سیاسی کردار تخلیق کر کے ان سے کسی بظاہر حقیقی صورت حال پر کمنٹ لیا کرتے تھے۔ بکوالڈ نے صدر آئزن ہاور کی ایک پریس کانفرنس پر طنزیہ کالم لکھتے ہوئے یہ کہا کہ رپورٹروں نے اس میں صدر کے ناشتے کی عادات کے بارے میں سوالات کیے تھے۔ صدر کے پریس سیکرٹری جیم ہیگرٹی طنز سمجھنے سے قاصر رہے اور انہوں نے خود ایک پریس کانفرنس کر کے یہ کہا کہ یہ خالص جھوٹ ہے۔ اس پر بکوالڈ کا جواب بہت مشہور ہوا کہ ”ہیگرٹی غلط کہہ رہا ہے۔ میں تو ملاوٹ شدہ جھوٹ لکھتا ہوں“۔

صحافت کی تاریخ مشہور ترین کالم نگاروں میں سے ایک آرٹ بکوالڈ کا یہ کالم ان کی کتاب While Reagan Slept سے لیا گیا ہے۔ جو افراد ہر کالم میں کچھ علمی بات یا انکشاف دیکھنا چاہتے ہیں وہ یہ کالم پڑھ کر مایوس ہوں گے کہ اس کالم کو پڑھ کر وہ کچھ نہیں سیکھ سکے، مگر جو افراد زندگی سے لطف کشید کرنا جانتے ہیں اور بیکار باتوں میں سے بھی کام کی بات برآمد کر لیتے ہیں، ان کے لئے یہ ایک پرلطف کالم ثابت ہو سکتا ہے۔


ان دنوں اکانومی کلاس میں سفر کرنے والوں نے یہ غور کیا ہو گا کہ ائیرلائنیں سیٹوں کے درمیان فاصلہ کم سے کم کرتی جا رہی ہیں اور آپ کا پورا جسم ایک سیٹ میں سمانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کل صبح میں ایک شٹل سروس کے ذریعے نیویارک جا رہا تھا کہ ائیرہوسٹس نے اعلان کیا کہ تمام دستی سامان کو سیٹوں کے نیچے رکھنا ہو گا۔

میرے ساتھ بیٹھے مسافر نے اسے بلایا اور پوچھا ”میں اپنے گھٹنوں کا کیا کروں؟ “
ائیرہوسٹس نے کہا ”کیا مطلب؟ “

”میرا بریف کیس مجھ سے اگلی سیٹ کے نیچے ہے اور اب میرے پیروں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں بچی ہے“۔
”میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے“۔ میں نے کہا۔

”کیا میں اپنے گھٹنے اوپر لگے ہوئے ریک میں رکھ سکتا ہوں؟ “ مسافر نے پوچھا۔
”ہرگز نہیں۔ یہ قوانین کے خلاف ہو گا۔ اگر ہم کسی فضائی دباؤ میں گھر گئے تو یہ آپ کی سلامتی کے لئے خطرناک ہو گا“۔

”آپ انہیں اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے؟ “ میں نے مشورہ دیا۔
”میں اخبار پڑھنا چاہتا ہوں۔ اگر گھٹنے سینے سے لگے ہوں تو اخبار کا صفحہ پلٹنا ناممکن ہو گا“۔ اس نے جواب دیا۔
ائیرہوسٹس نے کہا ”ایوی ایشن اتھارٹی کے قوانین کے تحت آپ اس وقت اپنے گھٹنے اپنے سینے سے نہیں لگا سکتے جب سیٹ بیلٹ کا نشان جلا ہوا ہو“۔

”ایوی ایشن اتھارٹی ایسا قانون کیوں نہیں بناتی جس کے تحت ائیرلائن پر لازم ہو کہ وہ مسافروں کو گھٹنہ رکھنے کی جگہ فراہم کرے؟ “
”کیونکہ اب ائیرلائنز ڈی ریگولیٹ کی جا چکی ہیں تاکہ مسابقت کی فضا قائم ہو۔ اب وہ نشستیں جتنی چاہیں قریب کر دیں۔ حکومت کو ٹانگوں کی پروا نہیں ہے“۔

”میں مویشیوں کا کاروبار کرتا ہوں۔ حکومت نے سخت قوانین بنائے ہوئے ہیں کہ میں ایک گاڑی میں کتنے مویشی لاد سکتا ہوں۔ بندہ سوچتا تو ہے کہ اس کو بھی مویشیوں جتنے حقوق ملنے چاہئیں“۔
”میں صرف ایک ائیرہوسٹس ہوں۔ اگر آپ کو کوئی شکایات ہیں تو مینیجمنٹ سے کیوں نہیں کرتے؟ “

”کیا میں اپنے گھٹنے سامان کے ساتھ جمع کروا سکتا ہوں؟ “ اس نے پوچھا۔
”میں معذرت خواہ ہوں۔ ہم ٹیک آف کرنے والے ہیں اور اب ہم مزید سامان جمع کرنے سے قاصر ہیں“۔ ائیرہوسٹس نے جواب دیا۔

”اگر آپ برا مت مانیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں۔ آپ اپنے گھٹنے میری گود میں رکھ لیں اور میں اپنے گھٹنے آپ کی گود میں رکھ لیتا ہوں۔ اس طرح ہم دونوں آرام سے بیٹھ سکیں گے“۔ ائیر ہوسٹس کے جانے کے بعد میں نے مشورہ دیا۔

”آپ ہم جنس پرست تو نہیں ہیں؟ “ اس نے چونک کر پوچھا۔
”بالکل نہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی نہیں ہیں“۔
”اوکے۔ کر کے دیکھ لیتے ہیں“۔ اس نے کہا۔

”کوشش کریں کہ میری پینٹ کی کریز خراب نہ ہو۔ آج دوپہر میں نے ایک لنچ پر تقریر کرنی ہے“۔ میں نے درخواست کی۔
”میں محتاط رہوں گا“۔
ہم نے ایک دوسرے کی گود میں اپنی ٹانگیں رکھ دیں۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ ہمارا جہاز ٹیک آف کرنے کی لائن میں تیسرے نمبر پر ہے۔

ائیر ہوسٹس سیفٹی بیلٹ چیک کرنے آئی تو ہمیں دیکھ کر سخت انداز میں بولی ”اس کی اجازت نہیں ہے“۔
”قوانین میں یہ کہاں لکھا ہے؟ “
”دیکھیں آپ نے یہ کیا شروع کر دیا ہے۔ سب مسافر یہی کر رہے ہیں“۔

درحقیقت یہ اتنا برا ٹرپ نہیں تھا اور جب ہم نیویارک کے ائیرپورٹ پر اترے تو ہم نے شہر جانے کے لئے ایک ٹیکسی بھی شیئر کر لی۔ خوش قسمتی سے وہ ایک بڑی گاڑی تھی اور ہم اپنی ٹانگیں جتنی چاہے پھیلا سکتے تھے۔ اس کا سفر جہاز سے کہیں زیادہ آرامدہ تھا۔

ترجمہ: عدنان خان کاکڑ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).