ایران۔ ولایت فقیہہ سے فاقوں تک


انقلاب ایران ستر کی دہائی کے اواخر میں ظہور پزیر ہوا جس کے نتیجے میں بادشاہت کی جگہ ایک ْولایت فقیہہ ْیعنی علما ٔ اور فقہا کی حکومت وجود میں آگئی اورایران بادشاہت سےایک مذہبی ریاست بن گیا۔ بقول ڈاکٹر ولی نصر کے ولایت فقیہہ کا تصور دراصل امام خمینی کا تھیسس یا مقالہ تھا جو انھوں نے زمانہ طالب علمی میں لکھا تھا جس کے مطابق حکومت کی اخلاقی، مذہبی اور سیاسی حدود کا تعین ولی فقیہہ اسلامی فقہ کے مطابق کرتا ہے اور حکومت کے انتظامی وسیاسی امور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ اس نظام حکومت میں طاقت کا اصل سر چشمہ فقہا کی ایک کونسل ہوتی ہے جو ولی فقیہہ کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتی۔

ایران میں انقلاب حادثاتی طور پر نہیں بلکہ حالات و واقعات کے تسلسل کی ایک کڑی کے طور پر ظہور پزیر ہوا۔ روس کی ہمسائیگی میں وسط ایشیا کا یہ ملک لینن کے بالشویک انقلاب کے بعد ہی اشتراکی نظریات سے متاثر ہوا تھا اور یہاں انقلابی نظریات کی پرچار ہوئی تھی۔ بادشاہت کے دور میں ایران میں انقلابیوں کا آئین کے نفاذ کا مطالبہ ہمیشہ سر فہرست رہا جس کے لئے یہاں ہمیشہ جدوجہد جاری رہی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہاں قاچاری بادشاہت کو ختم کرکے فوج کے ایک جنرل رضا شاہ کو حکمران بنایا گیا تو ان کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن نے محاذ بنا لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کو بھی معزول کرکے ان کے بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی کو اس خاندان کا پہلا بادشاہ بنا لیا گیا۔ 1951 ء میں منتخب آئینی مجلس کے تحت اشتراکی نظریات کے حامل محمد مصدق کو وزیر اعظم اور ایک مذہبی عالم آیت اللہ ابولقاسم کاشانی مجلس کے سپیکر منتخب ہوگئے۔ 1953ء میں محمد مصدق کی حکومت کے خلاف برطانوی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون اور ایما پر بغاوت کے نتیجے میں ان کو ان کے گھر میں قید کردیا گیا جہاں 1967 میں ان کا انتقال ہوگیا۔

محمد مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد محمد رضا پہلوی نے انقلاب سفید کے نام پر بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں مگر عوامی بے چینی کم نہ ہو پائی۔ بادشاہ کو اپنے انیس نکاتی انقلاب سفید پر اعتماد تھا کہ وہ ایران میں بڑی معاشی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا مگر دوسری طرف تودہ پارٹی کے اشتراکی اور مذہبی علماء دونوں نے ان اصلاحات کو نمائشی قرار دے کر مسترد کردیا۔ بادشاہ کی اصلاحات ملک میں چہار سو پھیلے افراط زر کے سامنے بے بس ہوگئیں اور لوگوں کا غصہ کم نہ ہو سکا۔

امام خمینی جو ساٹھ کی دہائی میں انقلاب سفید اور بادشاہت کی مخالفت کی وجہ سے منظر عام پر آگئے تھے، ایران میں گرفتاری اور قید و بند کے بعد جلاوطن ہوکر اعراق کے شہر نجف میں گزارنے کے بعد فرانس میں قیام پزیر تھے۔ 1977ء میں ایران کے نوجوانوں میں مقبول ڈاکٹر علی شریعتی کے بعد امام خمینی کے بیٹے کی پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی جس کو لوگوں نے ایرانی خفیہ ایجنسی کی کارستانی قرار دیا اور ملک بھر میں ایک دفعہ پھر تشدد کی لہر اٹھی جو بالآخر 1979ء میں انقلاب ایران پر منتج ہوئی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی ایک متفقہ راہنما کے طور پر سامنے آگئے۔

ایران 1977ء سے 1983ء تک انقلابی دور سے گزرا جس میں کشت و خون جاری رہا جہاں مخالفین کو سمری ٹرائل (مختصر شنوائی) کے بعد پھانسیاں دی جاتی تھیں اور انقلابی حکومت کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو دبانے کے لئے طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ چونکہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام کے لئے عوامی تائید حاصل کی گئی تھی اس لئے اسلامی حکومت کی مخالفت قابل تعزیر جرم قرار دی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ولایت فقیہہ کی مذہبی حکومت کے تصور کے خد وخال نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ جمہوریت پسند، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور ملک میں آئینی حکومت کے لئے جدوجہد کرنے والے روشن خیال اور ترقی پسند جو آغاز میں انقلابی حکومت کا حصہ تھے آہستہ آہستہ معدوم ہوئے اور بالآخر دوسیاسی گروہ سامنے آگئے جن میں سے ایک رجعت پسند علمأ کا گروہ کہلاتا ہے اور دوسرا روشن خیال علمأ کا۔

ایران کا انقلاب جو دراصل بادشاہت میں معاشی ناہمواریوں اور سماجی نا انصافیوں کے خلاف عوامی رد عمل کے نتیجے میں برپا ہوا تھا جس میں روشن خیال، جمہوریت کے حامی، ترقی پسند دانشور، طلبہ اور سیاسی کارکن ایک ہراول دستے کے طور پر نمایاں رہے۔ انقلاب ایران میں خواتین کا کردار بھی بے مثال رہا جس میں انقلاب کے لئے نظریاتی اور فکری راہنمائی کے علاوہ گلی کوچوں، بازاروں اور سڑکوں پر انقلابی تحریک کی سرپرستی تک ہر کردار میں خواتین نمایاں رہیں۔ انقلاب کے بعد امام خمینی نے بھی خواتین کے کردار کو سراہا اور ان کو انقلاب کے یاد گار کے طور پر حجاب کی تلقین کی۔ امام خمینی کا کہنا تھا کہ بادشاہت کے دوران چونکہ خواتین کی بے توقیری ہوئی ہے اس لئے اب انقلاب کے بعد ایران کی خواتین کا سر ننگا نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ جس حجاب کو مزاحمت کی علامت کے طور پر اپنایا گیا تھا اب اسی حجاب کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔

ایران کے انقلاب کے دو رخ ہیں ایک اس کا خارجی رخ ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا نے اس تبدیلی کو کیسے دیکھا اور دوسرا اس کا داخلی رخ ہے جس میں یہ نظر آتا ہے کہ انقلاب ایران کے عام لوگوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لایا۔ خارجی طور پر ایران نے انقلاب کے بعد اس وقت دنیا کے دونوں بڑی طاقتوں روس اور امریکہ سے تعلقات معاندانہ رکھے۔ انقلاب کے دوران امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے اور وہاں کام کرنے والوں کو یرغمال بنانے کے قضیے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو تقریباً دشمنی میں بدل دیا۔ ایران نے امریکہ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے شیطان بزرگ یعنی سب سے بڑا شیطان کا نام دیا۔ روس کے ساتھ بھی ایران کبھی دوستانہ تعلقات نہ بنا سکا۔ ایران کی امریکہ دشمن پالیسی کی وجہ سے مغربی ممالک میں ایران کو پسندیدگی کی نظر سے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ انقلاب کے بعد ایران اپنےخارجہ تعلقات میں ابتری کے نتیجے میں مختلف بین الاقوامی پابندیوں کا مسلسل شکار رہا جس کی وجہ سے اس کا بین الاقوامی تجارتی حجم گھٹ گیا اور معشیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔

ایران نے انقلاب کے بعد امام خمینی کے اسلامی مذہبی ریاست کے ولایت فقیہہ کے تصور کو دوسرے ممالک کو برآمد کرنے کی پالیسی اپنائی جس کی وجہ سے اسلامی ممالک نے ایران کی اس پالیسی کو اپنی حکومتوں کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے دوری اختیار کی۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے ممالک ہیں جہاں آبادی کی اکثریت کا مسلک وہاں حکومت کرنے والوں کے مسلک سے مختلف ہے وہ اس پالیسی کی وجہ سے ایران کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر شیعہ اکثریت کے ملک اعراق کے سنی العقیدہ صدر صدام حسین کے ساتھ جنگ چھڑ گئی اور اپنے ملک کے شیعہ اکثریت کے صوبے سے تیل نکالنے والے ملک سعودی عرب نے ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا۔ شیعہ اکثریتی ملک کویت اور بحرین کے سنی العقیدہ حکمرانوں نے بھی ایران کے شیعہ فقہا کی انقلابی نظریات کی برآمدگی کی پالیسی کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر اس سے دوری اختیار کی۔ انقلاب کے بعد ایران جہاں مغربی ممالک سے دور ہوا وہاں اسلامی ممالک میں بھی تنہائی کا شکار ہوا۔

داخلہ محاذ پر ایران کے انقلاب کے اثرات کا اندازہ ملک کے معاشی واقتصادی اعشاریوں سے بہترطور پر لگایا جا سکتا ہے۔ دنیا کا چوتھا بڑا تیل پیدا کرنے والا اور پوری دنیا کا دس فیصد تیل کے ذخائر رکھنے والے ملک کا سارا معاشی دارومدار ہی تیل کی برآمد پر ہے، لیکن تیل کس کو برآمد کرنا اس کے اختیار میں نہیں جس کی وجہ سے تیل کی درآمد سے وصولیاں اتنی نہیں ہوتیں جتنی اس سے کم تیل پیدا کرنے ممالک کی ہیں۔ ایران کے انقلاب سے قبل بھی یہاں تعلیم اور صحت کا ایک بہترین نظام موجود تھا جس میں مرد اور خواتین میں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ انقلاب کے بعد بھی اس نظام کو جاری رکھا گیا ما سوائے تعلیم میں مذہبی مواد کو شامل کرنے کے جس کی وجہ سے اس خطے میں سب سے زیادہ شرح خواندگی اور اعلیٰ تعلیم کی شرح یہاں پائی پائی جاتی ہے۔ مگر 25 فیصد تک بے روزگاری کی شرح کے ساتھ تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث ہنر مند افرادی قوت کو کام میں نہیں لایا جا سکا جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا اور ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔

انقلاب ایران کو معاشی، اقتصادی اور سماجی ترقی میں نہیں بدلا جاسکا جس کی وجہ یہاں سخت گیر مذہبی رجحانات کا فروغ اور ثقافتی گھٹن ہے۔ اسی گھٹن کی وجہ سے ہنر مند، تعلیم یافتہ اور کارباری لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور آج ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ متمول ایرانی ملک سے باہررہتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا سرمایہ اور ہنر واپس آجائے تو ایران کو کسی بیرونی امداد یا مدد کی ضرورت نہیں۔

انقلاب ایران کے نام سے سید سبط حسن نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ انقلاب ایران کے بعد تھیوکریسی کو ولایت فقیہہ کے نام پر آئینی اور قانونی شکل دی گئی ہے جو زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ایرانی قوم نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جب شاہ ایران کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے تو وہ ایسا کسی کو بھی بھگانے کے لئے کر سکتے ہیں جو ان کی سماجی اور ثقافتی آزادی پر قدغن لگائے اور معاشی اور اقتصادی استحصال کا باعث ہو۔ آج ایران میں کرپشن، بے روزگاری، غربت اور سماجی نا انصافی کا دور دورہ ہے جہاں ایک خاص مراعات یافتہ طبقہ وجود میں آچکا ہے جو ملک کے وسائل پر قابض ہے جس کی وجہ سے نہ صرف معاشرے کے پچھاڑے ہوئے طبقات میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے بلکہ ملک کے مختلف خطوں کے درمیان بھی عدم مساوات اور تفاوت کا راج ہے۔

ایران میں ثقافتی گھٹن کے خلاف خواتین نے اپنے سروں سے دوپٹے پھینک کر جس تحریک کا آغاز کیا تھا اب وہ آگے بڑھ کرکرپشن، بد عنوانیوں، اقتصادی اور معاشی ناہمواریوں کے خاتمے، سماجی و سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ بن چکا ہے۔ اگر اس بار عوامی جذبات کے شعلوں کو دبا دیایا ٹھنڈا کر بھی دیا جائے تو بغاوت کی چنگاری موجود رہے گی جو کسی بھی وقت جوالا مکھی بن سکتی ہے کیونکہ جب تک جنتا بھوکی ہو جنگ جاری رہتی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan