پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں اضافہ اور ڈاکٹر عاصم


ذرائع ابلاغ میں ترقی کے باعث انفارمیشن کی ترویج کے نت نئے طریقے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ WhatsAppنامی ایک ایپ ہے جس کی بدولت دنیا بھر سے مفت رابطہ کیا جا سکتا ہے اور اکثر اوقات جھوٹی سچی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں اس ایپ کے ذریعے افواہیں اور سازشی نظریات کا پھیلاؤ حیران کن ہے۔ راقم کے ذاتی تجربے کے مطابق اس شغل میں ہمارے بزرگ زیادہ کردار ادا کرتے ہیں (حالانکہ کئی دفعہ ان کی نیت غلط بات یا خبر پھیلانے کی نہیں ہوتی)۔ اگر ہم ہر ایسی بے سر وپا خبر اور سازشی نظریے کی وضاحت یا درستگی کا بیڑا اٹھائیں تو یہ کام عمر بھر ختم نہ ہو گا۔ فی الحال راقم کی تحریر کا مقصد اپنے تجربے کی روشنی میں ایک تازہ میسیج کی وضاحت کرنا ہے۔ کچھ روز قبل منصف اعلیٰ نے پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کےمتعلق کچھ ایکشن لئے تھے جس کے بعد ایک میسیج میں ان کالجوں کی نشوونما اور اس میں ڈاکٹر عاصم کےکردار پر بات کی گئی۔ اس ضمن میں صاحب مضمون (صاحب میسیج؟) نے سروسز ہسپتال میں اپنے قیام کا بھی ذکر کیا ہے اور وہاں موجودہ صورت حال پر رائے زنی کی ہے۔ راقم کو سروسز ہسپتال میں کام کرنے کے بعد کئی سال پرائیوٹ میڈیکل کالجوں میں کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔

میسیج کے مطابق پاکستان میں پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ذمہ داری ڈاکٹر عاصم پر عائد ہوتی ہے اور یہ سب ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے۔ صاحب (یا صاحبان) مضمون گوگل کا استعمال کرنا جانتے تو شاید جان لیتے کہ ملک کے بڑے پرائیوٹ میڈیکل کالجوں (آغا خان، بقائی، شفا انٹرنیشنل، فاطمہ میموریل، لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج وغیرہ) کا قیام ڈاکٹر عاصم کی تعیناتی سے کئی سال (اور کئی دہائیاں) قبل ہو چکا تھا۔ اسی طرح پاکستانی ڈاکٹروں کی بیرون ملک روانگی بھی ڈاکٹر عاصم نے شروع نہیں کروائی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ میری وضاحت کا مقصد پرائیوٹ کالجوں کی حمایت نہیں کیونکہ ان کالجوں کے مالکان بھی دودھ میں دھلے ہوئے بالکل نہیں۔ میسیج کے مطابق پی ایم ڈی سی کوئی الہامی ادارہ تھا جسے ڈاکٹر عاصم نے برباد کر دیا۔ پاکستان میں میڈیکل تعلیم پر نظر رکھنے والا یہ ادارہ اتنا ہی ایماندار ہے جتنا اس ملک میں ایک کریانے کی دوکان چلانے والا شخص ہے۔

اس ادارے کو کچھ پرائیوٹ کالج جس طرح چکمے دیتے ہیں، اس کا احوال راقم نے کچھ برس نیوز لائن میگزین میں لکھا تھا۔ مثال کے طور پر انسپکشن کے دن کا علم کالج کو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ معائنے کا یہ عمل ہنگامی ہونا چاہیے لیکن بیشتر پرائیوٹ کالجوں کو اس روز کا پہلے سے معلوم ہوتا ہے اور اس کے مطابق مناسب تیاری کر لی جاتی ہے۔ اس کمزوری کے باوجود پی ایم ڈی سی نے گزشتہ کچھ برسوں میں کچھ ناقص ادارے بند کروائے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹروں کے بیرون ملک جانے کا سوال ہے تو اس میں کسی ادارے پر ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی شکست کا نشان ہے کہ پڑھے لکھے لوگ یہاں گھر کی سہولیات چھوڑ کر پردیس میں ایک کمرے کے اپارٹمنٹ کا رخ کرتے ہیں۔

انٹری ٹیسٹ اور سالانہ امتحانات میں پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کا اتنا اثرورسوخ نہیں جتنا اس میسیج میں بیان کیا گیا ہے۔ راقم کئی سال سے پنجاب میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سایئنسز کے نتائج دیکھ رہا ہے اور ہر پرائیوٹ میڈیکل کالج کے طلبا کی کارکردگی ہر سرکاری میڈیکل کالج کے طلبا سے بہتر ہرگز نہیں ہوتی۔ اینٹری ٹیسٹ میں جن طلبا کا داخلہ سرکاری کالج میں نہیں ہو پاتا، ان کو نجی اداروں میں جگہ ملتی ہے۔ فیس کے معاملے میں نجی ادارے زیادتی کرتے ہیں لیکن اس کی ایک حد پی ایم ڈی سی کی جانب سے مقرر ہے۔

جہاں تک نجی اداروں کی عمارات کا ذکر ہے، ”آپ کو اکثر کالج گھروں اور پلازوں میں ملیں گے” ایک مغالطہ ہے۔ ہر کالج کے ساتھ ایک ہسپتال کی عمارت ہونا لازم ہے۔ ہاوٴس جاب کے معاملے میں پرائیوٹ کالجوں کی کارکردگی ابتری کا شکار ہے لیکن ان کا ہر گریجویٹ سرکاری ہسپتال میں ہاوٴس جاب نہیں کرتا۔

پرائیوٹ کالجوں پر تنقید ضرور کیجئے لیکن جھوٹ کے بل پر نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر۔ اس موضوع پر بحث چھڑے تو کالجوں میں لڑکوں کی گرتی ہوئی تعداد، میڈیکل کی تعلیم کے معیار اور ڈاکٹروں کے مابین اخلاقیات کی پریکٹس پر بھی کچھ بات ہو۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed