ایران: مزاحمت کی علامت بن جانے والی خاتون


ایران میں گذشتہ ایک ہفتے سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایرانی افراد حکومت کی بدعنوانی، بے روزگاری اور کمزور معیشت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سخت پابندیوں کے باوجود کچھ ویڈیوز اور تصویر آن لائن شیئر کی گئی ہیں جن میں مظاہرین کو عمارتوں پر دھاوا بولنے اور سکیورٹی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا جا سکتا ہے۔

حکام کی جانب سے انسٹاگرام اور میسجنگ ایپلی کیشن ٹیلی گرام کو بلاک کیا گیا تاکہ مظاہروں کی کال اور تصاویر اور ویڈیوز آن لائن شیئر نہ کی جا سکیں لیکن اس کے باوجود بہت ساری تصاویر آن لائن دیکھی گئیں۔ جو تصاویر سب سے زیادہ شیئر ہوئیں ان میں ایک تصویر ایک خاتون کی سفید سکارف اتار کر بظاہر اسلامی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک چھڑی پر لہراتے ہوئے تھی۔ اگرچہ یہ تصویر اصل ہے لیکن یہ حالیہ مظاہروں کے دوران نہیں لی گئی۔

ان مظاہروں کا آغاز ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد سے 28 دسمبر کو ہوا تھا، اور جلد ہی یہ دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں پھیل گئے۔ مظاہرین کی جانب سے ملک کے رہبرا اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی حکمرانی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سکارف کو لہرانے والی خاتون کی تصویر سب سے پہلے سوشل میڈیا پر یہ مظاہرے شروع ہونے سے ایک دن قبل امریکہ میں مقیم ایرانی صحافی مسیح علی نژاد نے پوسٹ کی تھی۔

مسیح علی نژاد خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور دو سوشل میڈیا مہمات، مائی سٹیلتھی فریڈم اور وائٹ ویڈنس ڈیز کی بانی ہیں۔ مائی سٹیلتھی فریڈم ایرانی خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ عوامی مقامات پر لازمی طور پر استعمال کیے جانے والے سکارف کے بغیر اپنی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کریں۔ وائٹ ویڈنس ڈیز کا آغاز سنہ 2017 میں ہوا تھا اور یہ خواتین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ہر بدھ کے روز ایران میں لباس کے سخت قوانین کے خلاف احتجاج کے طور پر سفید کپڑے استعمال کریں۔

مسیح علی نژاد نے ایک خاتون کی تصویر اپنے انسٹاگرام کے اکاونٹ پر پوسٹ کی اور اس کے عمل کو وائٹ ویڈنس ڈے مہم کا حصہ قرار دیا۔ اسی روز اس خاتون کو تہران کی مصروف شاہراہ خیابان انقلاب پر فلم بند کیا گیا، حکام نے دارالحکومت میں اعلان کیا کہ ایسی خواتین جنھیں سر کے بال ڈھانپے بغیر دیکھا گیا انھیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

ایک ڈبے پر کھڑی سکارف لہراتی خاتون کی تصاویر اور ویڈیوز کو بہت زیادہ بار ان افراد کی جانب سے شیئر کیا گیا جو یہ خیال نہیں رکھتے تھے کہ اصلاحات یہاں تک پہنچیں گی، اور حکومت مخالف مظاہرین جو مذہبی رہنماؤں کی طاقت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار تھے۔

اس کے نتیجے میں یہ جوان خاتون ایران میں مظاہروں کا ایک چہرہ بن گئیں جن میں سینکڑوں خواتین نے شرکت کی ہے۔ بہت ساروں نے اس خاتون کو ’ایران کی روزا پارک‘ کا نام دیا۔

ایک معروف ٹوئٹر صارف نے فارسی زبان میں لکھا: ’لازمی حکاب کے خلاف کھڑی ہونے والی لڑکی ایرانی خواتین کی سول نافرمانی اور مزاحمت کی علامت بن گئی ہے۔ روزا پارک جبر کے سامنے نہیں جھکی۔‘

اس خاتون کی اس بے باکی کو لوگوں نے خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ اس ڈبے پر پھول رکھے گئے ہیں جس پر مبنیہ طور پر اس کے کھڑے ہوکر احتجاج کیا تھا۔

سینکڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے اپنی پروفائل تصویر بھی ایک خاتون کے لہراتے ہوئے سکارف کے طور پر لگائی۔

اگرچہ اس جوان خاتون کے شناخت اور قسمت تاحال نامعلوم ہے لیکن وہ حکومت مخالف مظاہروں میں آزادی اور امید علامت بن گئی ہیں۔ وہ ایران میں کسی سیاسی بحران کا چہرہ بننے والی پہلی ایرانی خاتون نہیں ہیں۔ سنہ 2009 میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہروں میں ندا آقا سلطان کی موت کی ویڈیو نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی تھی۔

ندا آغا سلطان – 2009


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp