زندگی بدل دینے والا ایک تھپڑ


پرائمری پاس کرنے تک میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ میرا شمار کبھی بھی غیر معمولی ذہین طلبا میں نہیں رہا۔ یہ وہ دور تھا جب گاؤں کے سرکاری اسکول میں اپنا بچہ داخل کرواتے وقت باپ ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہا کرتے تھے کہ یہ لیں، اب یہ آپ کے حوالے، اس کی کھال آپ کی ہڈیاں ہماری۔

پرائمری اسکولوں میں اساتذہ بچوں سے اپنے گھر کے کام کرواتے تھے۔ بچے بخوشی کام کیا کرتے تھے اور یہ ایک عام بات تھی جس پر والدین کو چنداں اعتراض نہ ہوتا۔ سرکاری ٹیچر کے مال مویشی اسکول کے شاگردوں کے سہارے پلا کرتے تھے۔ بالعموم پڑھائی میں نکھٹو طالب علم اس طرح کے کاموں میں مشاق ہوتے ہیں۔ سبق یاد نہ ہونے یا ماسٹر جی کے ذاتی کام میں کسل مندی کا نتیجہ ڈنڈے سے پٹائی ہوتا تھا۔ اگر استاد محترم اچھے موڈ میں ہوتے تو مرغا بنا دیتے جو ڈنڈے سے پٹائی کی نسبت ہلکی سزا ہوتی۔ گاؤں کے سرکاری اسکولوں میں بچوں پر تشدد معمول تھا، اب کیا صورت احوال ہے خدا بہتر جانتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں آٹھویں جماعت تک اسکول کی سہولت موجود تھی، لیکن پرائمری اور مڈل اسکول کی عمارات الگ اور ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر تھیں۔ مڈل اسکول کو ہم انگریزی اسکول بھی کہا کرتے تھے کیونکہ چَھٹی جماعت سے باقاعدہ انگریزی کا مضمون شاملِ نصاب ہوا کرتا تھا۔

یوں تو پرائمری کے نصاب میں بھی انگریزی کی کتاب ہوتی تھی لیکن پانچویں جماعت تک گاؤں کے طلبا کی انگریزی A for Apple، B for Ball، C for Cat سے آگے کبھی نہ بڑھ پائی کیونکہ ہمارے پرائمری کے اساتذہ کو بھی اتنی انگریزی ہی آتی تھی۔ یوں تو بچپن میں اگلی کلاس میں جانے شوق ویسے ہی حد سے سوا ہوتا ہے لیکن انگریزی کو بطور مضمون پڑھنے کی خواہش ہی تھی جس نے اس خبط کو دو چند کیا ہوا تھا۔

مڈل اسکول کے اساتذہ پرائمری اساتذہ کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے تھے لیکن ہر دو میں جو ایک چیز مشترک تھی، وہ تھی ’مار‘۔ بلا تمیز رنگ و نسل تمام اساتذہ مستحق طلبا میں دل کھول کر ڈنڈے سے یہ فائدہ تقسیم کرتے تھے۔ مڈل اسکول کی روایت تھی کہ چھٹی سے زرا پہلے آخری پیریڈ میں طلبا کا انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ سنانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا تاکہ طلبا کو اسپیلنگ ازبر ہو جائیں۔ استاد انگریزی کا ایک لفظ بولتا اور طلبا باری باری اس لفظ کے اسپیلنگ بتاتے۔ جس طالب علم کو اس لفظ کے اسپیلنگ نہ آتے اگر اس سے اگلا طالب علم اسپیلنگ ٹھیک بتا دیتا تو بتانے والا پہلے طالب علم کو تھپڑ مارتا۔ اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔

گاؤں کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ لائق طلبا سے نالائق طلبا کو پٹوایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار تو اپنا مولا بخش بھی عنایت کرتے اور پھر وہ طالب علم نالائق طالب علموں کو ڈنڈے سے مارتا اور اس آڑ میں اپنا ذاتی حساب کتاب بھی چکتا کرتا۔

ایک دن یہی سلسلہ چل رہا تھا۔ میری باری پر استاد محترم نے Insects کے اسپیلنگ پوچھے جو میں ٹھیک سے نہ بتاسکا۔ میری شامت اعمال کا نتیجہ تھا یا کچھ اور کہ اگلا لڑکا جس نے اس لفظ کے اسپیلنگ ٹھیک بتائے پڑوسی گاؤں کا تھا، جن سے ویسے ہی اِینٹ کتے کا ویر رہتا تھا، جبکہ اپنے گاؤں کے لڑکے ایسی معاملہ داری میں لحاظ کر لیا کرتے تھے۔ اوپر سے وہ لڑکا مجھ سے بلند قامت اور مضبوط جسم کا مالک تھا جس کی ہتھیلیاں بھری ہوئی تھیں۔ استاد محترم کا اشارہ پاتے ہی میرے قریب آ کر اس نے زناٹے سے اپنا چوڑا چکلا ہاتھ بھرپور قوت سے میرے بائیں گال پر جڑ دیا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے، بائیں آنکھ سے متواتر پانی نکلنے کے ساتھ نظر آنا بند ہو گیا، کان سائیں سائیں کرنے لگا اور آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔ ضرب شدید تھی، قریب تھا کہ میں بے ہوش ہو جاتا لیکن اپنے آپ کو سنبھالا اور حواس قابو میں رکھے۔

استاد محترم نے میری متغیر ہوتی حالت کو بھانپ لیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ان کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہراتے نظر آئے۔ انھوں نے فورا ہی ایک لڑکا میرے ساتھ کیا کہ نلکے اس کا منہ دھلوا کر لاؤ۔

منہ دھو کر آیا اور اپنی نشست پر مظلومیت کا استعارہ بنا دُبک کر بیٹھ رہا۔ تھپڑ کھا کر خفگی کا سامنا ہونا فطری تھا لیکن زیادہ شرمندگی اس بات پر تھی کہ تھپڑ مارنے والے لڑکے کا تعلق ساتھ والے گاؤں سے ہے۔ میرے ہم جلیسوں نے آنے والے دنوں میں مجھے خوب لعن طن کیا کہ تف ہے تجھ پر جو دوسرے گاؤں کے لڑکے سے تھپڑ کھایا۔

ڈراموں فلموں اور قصوں کہانیوں میں دیکھ پڑھ اور سن چکا تھا کہ کس طرح ایسا ہی واقعہ کسی انسان کی زندگی میں اس کی کایا پلٹ ثابت ہوتا ہے۔ نئے جذبے بیدار ہوتے ہیں اور ایک نکما انسان مختلف روپ میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔ اس جذبے کے تحت میں نے مزید محنت اور لگن سے پڑھنا شروع کیا۔ تدریسی تاریخ کا وہ نایاب دور تھا جس میں ٹیوشن کو بدعت اور استاد کی نااہلی گردانا جاتا تھا، چنانچہ گھر آ کر خود ہی اسکول میں پڑھے سبق کی جگالی کرنا ہوتی تھی۔ اگر کوئی استاد ٹیوشن پڑھاتا بھی تو بنا معاوضہ و فی سبیل اللہ پڑھاتا۔ تنگی معاش یا کچھ اور لیکن اب تو یہ جذبہ خیر سگالی معدوم ہو چکا ہے اور تعلیم و تدریس ایک صنعت بن چکی جس کا مقصد محض کسب مال رہ گیا ہے۔

اس محنت کا نتیجہ تھا کہ کلاس میں پوزیشن آنا شروع ہو گئی اور میں درجہ بدرجہ ترقی کرتا گیا۔ چھٹی جماعت میں تیسری، ساتویں میں دوسری اور آٹھویں جماعت میں نہ صرف پہلی پوزیشن آئی بلکہ پورے اسکول میں ٹاپ کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے نتائج کا اعلان کرتے وقت میری اس تدریجی ترقی کو بھی بیان کیا اور کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جیب سے دس روپے بطور انعام عطا کیے۔

آٹھویں کے بعد ہائی اسکول میں داخلہ کے لیے شہر جانا ہوا جہاں مقابلہ سخت تھا۔ سندھ میں بورڈ نویں، دسویں سے ہوا کرتا تھا۔ شہر کی پڑھائی گاؤں کی نسبت اچھی تھی لیکن تھپڑ کے نتیجے میں پیدا ہوا جذبہ میرے لاشعور میں ہمیشہ بیدار رہا۔ کسی بھی موقع پر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں غیر معمولی ذہانت کا مالک ہوں لیکن اس واقعے کے بعد جس چیز میں بھی حصہ لیا دل و جان سے لیا اور کوئی نہ کوئی پوزیشن ضرور حاصل کی، پھر چاہے وہ شش ماہی امتحان ہوں سالانہ امتحان ہوں یا غیر نصابی علمی مقابلے۔

ذریعہ معاش زراعت تھا اور حالات ناسازگار، چنانچہ جب نویں جماعت تیسری پوزیشن کے ساتھ پاس کرکے دسویں جماعت میں پہنچا تو نامساعد گھریلو معاشی حالات 1999ء میں آنے والے سمندری طوفان کی بدولت مزید مخدوش ہو گئے تو میرے لیے مزید تعلیم جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔

قصہ کوتاہ، میں اس تھپڑ سے کوئی چھپر پھاڑ قسم کی تبدیلی کشید نہ کرسکا، البتہ تاریخ انسانی گم نامی سے اوج کمال تک پہنچنے والے ایسے کرداروں سے مزین ہے جنھیں کسی نہ کسی رنگ میں تھپڑ پڑا اور اس تھپڑ کے نتیجے میں ان کے صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں اور پھر اپنی تقدیر انھوں نے اپنے ہاتھ سے خود سنواری۔ وہ تھپڑ خواہ کسی نوکری کے لیے منت سماجت کرتے دھتکارے جانے کی صورت میں تھا یا شخص مذکورہ کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں۔ کم و بیش حالات کے تھپیڑوں کا یہ تھپڑ ہر ایک کو پڑتا ہے لیکن یہ تھپڑ کھانے والے پر منحصر ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر پاتا ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).