سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا!


اس نے اپنی ٹوپی اتاری، سر پہ کھجلی کی اور شرماتے ہوئے کہا۔
وہ سر۔ بس ذرا۔ کچھ انعام کی رقم ایڈوانس میں مل جاتی تو۔

ہاں ہاں! یہ فی الحال 1 ارب ڈالر پکڑو اور کام پہ لگ جاؤ۔ مجرم پکڑ پکڑ کے ہمارے حوالے کرتے جاؤ اور انعام لیتے جاؤ۔ جتنا بڑا مجرم اتنا بڑا انعام۔
مشرف نے رقم پکڑی، ٹوپی سر پہ پہنی اور کام پہ لگ گیا۔

یہ بھی عجیب کھیل تھا، اس کھیل کے منظر بدلتے رہے، کردار بدلتے رہے، کئی سنسنی خیز لمحے اور کئی دلچسپ موڑ بھی آئے لیکن کہانی آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں 15 سال پہلے کھڑی تھی۔ اب لگتا ہے کہ یہ کھیل اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کی آخری قسط چل رہی ہے۔

ہوا کچھ یوں تھا!
11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ کچھ لوگ ہمارے ٹاورز گرا کے بھاگ گئے ہیں، انہیں تلاش کرنے میں ہماری مدد کرو۔
جواب ملا۔ جی جی کیوں نہیں۔ ہم آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں سرکار۔ اور ان کے تمام مطالبات بلا چوں چراں تسلیم کر لیے۔
مجرموں کی تلاش شروع ہو گئی۔

ملا برادر، ملا عبدالسلام ضعیف، عبدالغنی، یاسر، عبید اللہ، اختر منصور، ڈاکٹر عافیہ اور نہ جانے کتنے ہی لوگ آن ہی آن میں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیے گئے۔ ادھر سے انعام کی رقم بڑھتی گئی اور ادھر سے تعاون بڑھتا رہا۔ پاکستان کے فوجی اڈے استعمال ہونے لگے، نیٹو سامان کی ترسیل ہونے لگی، ڈرون حملے ہونے لگے، ڈو مور پہ ڈو مور ہونے لگا، مجرموں کے ساتھ ساتھ ہزاروں قبائلی، بچے، بزرگ اور طلباء بھی ڈرون حملوں کی نذر ہوتے رہے اور اب تک لگ بھگ ستر ہزار کے قریب ہمارے لوگ اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔

اب جبکہ!
امریکہ اور افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی جانب بڑھ چکا ہے تو پاکستان بھی طالبان کے قریب ہوتا گیا۔ اس بات کی امریکہ کو شدید تکلیف ہوئی اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا سارا غصہ پاکستان پہ نکالنا شروع کر دیا اور مودی سرکار ٹرمپ کے ٹویٹ کو لے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم پہ چل پڑا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہے
کہ امریکہ تو دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہی نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ اس خطّے میں امن قائم ہو اور وہ نہیں چاہتا کہ چائنہ کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو بلکہ وہ تو مستقل طور پر یہاں ڈیرے جمانے کے منصوبے بنا رہا ہے۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن!
اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ اس سارے کھیل میں نقصان کس کا زیادہ ہوا۔ ہمیں یاد ہے جب اس گھناؤنے کھیل کا آغاز ہو رہا تھا، ہم یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے اور یہ ہمارا یونیورسٹی میں پہلا سال تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ کچھ محبان وطن اس وقت دست بستہ التجا کر رہے تھے کہ مشرف صاحب! نہ لو یہ پنگا، آنکھیں بند کر کے اس بے تکی مہم کا ایندھن نہ بنو، مذاکرات کی راہ اختیار کرو، کچھ باتیں مان لو اور کچھ منوا لو۔

انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ کام نکلتے ہی امریکہ وہی زبان بولے گا جو بھارت بول رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس امداد سے معیشت میں بھی کوئی انقلاب نہیں آئے گا اور وہ بدستور آئی۔ ایم۔ ایف اور ورلڈ بینک کے کھونٹوں سے بندھی رہے گی اور انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ افغانستان بھارت اور اسرائیل کا اڈہ بن جائے گا۔

لیکن تب!
اس طبقے کو اور ان محبان وطن پاکستانیوں کو ایک طعنہ دیا گیا تھا کہ یہ دہشت گردوں کے ہمدرد لوگ ہیں۔ یہ بھاری پگڑی والوں کے حامی لوگ ہیں۔ یہ مٹھی بھر شر پسندوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے لوگ ہیں۔ یہی لوگ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، یہ پاکستان کو روشن نہیں دیکھنا چاہتے اور یہ ہمیں پتھر کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

لیکن آج کیا یہ سارے اندیشے سچ ثابت نہیں ہوئے؟ کیا ہم اپنا سب کچھ لٹا کے بے ننگ و نام نہیں ہو گئے؟ اب وزیر خارجہ آنکھیں ملتے ہوئے کہ رہے ہیں ” نو مور ” جیسے ابھی ابھی کسی خواب سے بیدار ہوئے ہوں۔

وزیر خارجہ صاحب! اب آپ کے ”نو مور“ کو بہت دیر ہو گئی ہے۔
کیونکہ اب آقا بھی خوش نہیں، پیٹ بھی نہیں بھرا، 33 بلین ڈالرز نے ہماری زندگیوں میں کوئی انقلاب بھی برپا نہیں کیا اور آخرت کا کڑا حساب اپنی جگہ۔ اب سب کچھ لٹا کے ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اب آپ دن میں چراغ نہ ہی جلائیں تو اچھا ہے کیوں کہ اب اس کھیل کا ”دی اینڈ ” ہونے والا ہے—


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).