کیا بیوہ عورت شادی نہیں کر سکتی؟


وہ آج بھی مجھے کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ اُس کے چہرے سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ آج بھی گھر میں کسی سے جھڑپ ہوئی ہے۔ گھر میں تھا ہی کون ایک بیٹا ایک بہو انھوں نے بھی اِس بدنصیب سے جینے کا حق چھین رکھا تھا۔ کہنے کو تو وہ بیٹے بہو والی تھی لیکن اُس کی عمر ایسی نہ تھی کہ بڑھاپے کی چادر اوڑھ کر دنیا سے لاتعلقی اختیار کرلے۔ ابھی بمشکل زندگی کی چالیس بہاریں ہی تو دیکھی تھیں۔ البتہ کم عمری کی شادی اوپر سے شادی کے پہلے سال ہی بیٹے کی پیدائش نے اسے چالیس سال کی عمر میں ساس کے رتبے پر فائض کردیا تھا۔ وہ بیٹے کی جلد شادی کی حامی نہ تھی لیکن بیمار شوہر کی آخری خواہش کے آگے وہ بےچاری بےبس تھی۔ شوہر جوکہ بلیڈ کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلا، مرنے سے پہلے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنے اور بہن کی بیٹی کو بیٹے سے بیاہنے کا خواہشمند تھا۔ شوہر صاحِب تو اپنی آخری خواہش پوری کر گئے لیکن اِس بدنصیب کو ہزاروں ادھوری خواہشوں سمیت دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔

آج جب منیر احمد جیسا سلجھا ہوا انسان اُس کی زندگی میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اُسے بیوگی کی سفید چادر سے نکال کر سہاگن کی رنگین چادر میں ڈھانپنا چاہتا ہے تو خونی رشتے اِن خوشیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بیٹے بہو کا کہنا ہے کہ ماں کے ایسا کرنے سے وہ معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ دوست یار عزیزو اقارب کیا کہیں گے۔ زمانہ طرح طرح کی باتیں کرے گا ہم پر تھو تھو کرے گا۔ لہذا معاشرتی تقاضا یہی ہےکہ وہ خود کو بیوگی کی سفید چادر میں ڈھانپے رکھے۔ اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر ایسے افراد پر مشتمل معاشرے کی تابعداری کرے جہاں ایک بڑی عمر کی بیوہ کو زنا کرنے کی اجازت تو ہے لیکن نکاح کرنے کی نہیں۔

یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں پورے برصغیر کا المیہ ہے اور نہ ہی یہ کسی ایسے مذہب کے ماننے والوں کی داستان ہے جہاں بیوی کو شوہر کی شعلوں میں لپٹی لاش کے ساتھ آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک ایسے مذہب سے جڑے لوگوں کی کہانی ہے جو خصوصی طور پر خواتین کے استحصالی نظام کو دفن کرکے مرد و عورت کی تفریق کو ختم کرنے آیا تھا۔ وہ مذہب جس نے معاشرے میں عورت کے ہر کردار کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اُس کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث بھی بنا۔ پستی سے اٹھا کر اس کے رتبے کو بلند کیا۔ لیکن آج ہمارا معاشرہ عورت زاد کو اُسی بلندی سے چھلانگ لگا کر واپس پستی میں غرق ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ ناجانے کیوں اسے عزت کی زندگی گزارنے کے بجائے گناہوں میں دھکیلنے پر بضد ہے۔

جبکہ قرآنِ کریم میں بیواؤں کے حوالے سے واضح احکامات ہیں اور خصوصی طور پر بیواؤں سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں۔

”اور جن کے خاوند گزر جائیں وہ عدت گزارے چار ماہ دس دن اور اِس دوران کوئی نکاح کا پیغام نہ بھیجے اور نہ ہی رشتہ طے کرے جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے اور اُس کے بعد چاہے تو نکاح کرلے“(سورۃ البقرۃ)

جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج مطہرات کو دیکھیں تو اکثریت بیواؤں کی ملیں گی۔ جس کی بہترین مثال حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔ جبکہ ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیھ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے تین بچے بھی تھے(مسند احمد)۔

ایک جگہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ بیوہ اگر شادی کرنا چاہے تو اُسے کوئی نہ روکے اور اگر نہ کرنا چاہے تو اُس پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ (بخاری شریف) یعنی یہ سب عورت کی خود کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ جو چاہے وہ کرے۔ وہ اپنے فیصلے میں مکمل آزاد ہے۔ تو پھرظالم سماج کون ہوتا ہے اُس کے راستے میں رکاوٹیں حائل کرنے والا۔ بیٹے کو کیا حق ہے ماں سے اُس کی خوشیاں چھیننے کا۔ بہو کون ہوتی ہے ساس کی زندگی کی راہیں متعین کرنے والی معاشرہ کون ہوتا ہے اُس کی کردار کشی کرنے والا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون چالیس پینتالیس سال کی عمر میں بیوہ ہوجائے اور عدت کے بعد اسے دوسرے نکاح کی ضرورت پیش آئے تو معاشرے کے لوگ اُس کے اِس عمل کو اِس قدر معیوب سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے اُس سے کوئی گناہِ عظیم سرزد ہوگیا ہو۔ توبہ توبہ اِس عمر میں شادی کی کیا سوجھی۔ کچھ عمر تو کٹ گئی تھی کچھ اور کاٹ لیتی بچوں کا ہی کچھ خیال کرلیتی۔ بےچارے یتیم بچوں کو پرائے مرد کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ پہلے ہی سے کچھ چکر لگتا ہے ورنہ ایسی بھی کیا جلدی تھی شوہر کے قبر کی مٹی تو خشک ہونے دیتی۔ زمانے بھر میں ایسی باتیں کرکے اُس بےچاری بیوہ کی ایسی کردار کشی کی جاتی ہے کہ اُس کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی عمر کی اکثر بیوہ خواتین چاہتے ہوئے بھی نکاح کرنے سے کتراتی ہیں اور تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جن میں سے بعض خواتین اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کےلیے یا تو ہم جنس پرستی کی جانب راغب ہوجاتی ہیں یا پھر غیر مرد سے ناجائز تعلقات کا سہارا لےکر گمراہی کے ایسے راستے پر چل نکلتی ہیں جو بالآخر اِسی بےمہر معاشرے کا تر نوالہ ثابت ہوتی ہیں۔

لہذا ضرورت اِس امر کی ہےکہ معاشرے میں موجود باشعور طبقہ اِس طرح کی جہالت پر مبنی سوچ اور فرسودہ خیالات کے خاتمے کےلیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ تاکہ معاشرے میں موجود بیوہ خواتین کے سامنے حائل رکاوٹیں دور ہوں اور وہ زمانے کی پرواہ کیے بغیر اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ لینے میں مکمل آزاد اور خود مختار ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).