پاکستان پر صدر ٹرمپ کی یلغار


صدرڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف ٹویٹ پر کابل اور دہلی کے علاوہ کئی بھی اظہارمسرت نہیں کیا گیا حتیٰ کہ خودامریکیوں نے بھی اس طرزسفارت کاری پر سخت ناپسندیدگی ظاہر کی۔ ٹرمپ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی تو پیدا کرہی چکے اب وہ کابل اور بھارت کو بھی پاکستان کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ افغانستان میں استحکام کے لیے ضروری تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ تمام علاقائی ممالک کو ایک صفحے پر لاتی اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت خطے میں سیاسی استحکام کے قیام کو ممکن بناتی لیکن اس کے برعکس امریکہ نے خطے میں تصادم کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی۔ ٹرمپ اور امریکہ قیادت کے بیانات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی ناکامیوں کا ملبہ اس پر ڈال کر اپنی رائے عامہ کے سامنے سرخ رو ہوسکیں۔ پاکستان نواز افغانوں کو کچلنے کے لیے ہماری سیکورٹی فورسز کا استعمال کریں اور اس کے بعد اسلام آباد کو کشمیر یوں کی تحریک مزاحمت کی سرپرستی سے بھی دست کش ہونے پر مجبور کریں۔

امریکہ کی اس حکمت عملی کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے ہی بلکہ اس کے نتیجے میں افغانستان میں امن کے امکانات نہ صرف معدوم ہوجائیں گے بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کشیدگی اور محاذآرائی میں زبردست اضافے کا قومی امکان ہے۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات پہلے ہی شدید کشیدہ ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت میں تعینات سابق پاکستانی سفیروں جنہیں ہائی کمیشنر بھی کہا جاتاہے کو دہلی کے ایک ادارے نے مدعو کیا۔ ان کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول سے بھی ملاقات کرائی گئی۔ ڈول سے پوچھا گیاکہ جناب آپ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وارل ہوئی ‘ جس میں آپ نے پاکستان کے اندر شورش کی سرپرستی کے عزم کا اظہارکیا تھا۔ کیا بطور مشیر قومی سلامتی بھی آپ کا یہی نقطہ نظر ہے تو موصوف نے جواب دیا کہ اگرآپ چھیڑچھاڑ سے باز نہیں آئیں گے تو ہماری یہی پالیسی ہوگی۔ کشمیر کے بارے میں موصوف نے کہا کہ وہ بھارت کے داخلی معاملات کے بارے میں کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیں گے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ جو شخص آج وزیراعظم نریندر مودی کے بعد سب سے زیادہ طاقتور سمجھاجاتاہے اس کے پاکستان کے بارے میں کیا خیالات اور عزائم ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا ہرراستہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری اور کشمیر کے مسئلہ کے حل سے جڑا ہواہے۔ ماضی میں اعلیٰ امریکی قیادت نے بھارتیوں کو قائل بھی کیا او رمجبور بھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کریں۔ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کم ہوئی۔ کنٹرول لائن پر جنگ بندی ہوئی اور کشمیر کے حل کے لیے بھی ایک فریم ورک پر اتفاق ہوا لیکن موجودہ انتظامیہ نے پاکستان کا کان مروڑنے کی خاطر بھارت کا استعمال کرنا شروع کردیا جو کہ ایک خطرناک کھیل ہے۔ امریکہ اگر افغانستان میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پاکستان اور بھار ت کے مابین تنازعات کے حل کے لیے کوششیں کرنا ہوںگی۔ دونوں کے ساتھ ایک ساتھ بات کرنا ہوگی نہ کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال۔
تین ماہ قبل یکم اکتوبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کابل گئے تو افغان صدر اشرف غنی نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان اور بھارت کے درمیان واہگہ کے ذریعے تجارتی راہداری فراہم کرانے میں کردار ادا کریں۔ جنرل باجوہ نے جواب دیا کہ وہ بھارت کو کہیں کہ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ (APTTA) کے حوالے سے ہمارے ساتھ سرکاری سطح پر مذاکرات کا آغاز کرے۔ صدر غنی نے پیغام رسانی کردی لیکن دہلی نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ بھارت کی موجودہ حکومت کو غلط فہمی ہے کہ وہ امریکہ کے اشتراک سے پاکستان کا مکو ٹھپنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بلکہ مودی حکومت اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتی ہے۔

اس تلخ اور کشیدہ ماحول کے باوجود حالیہ دنوں پاکستان کے سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے اپنے بھارتی ہم منصب سے حال ہی میں ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں طے پایا کہ دونوں ممالک کنٹرول لائن پر بھاری ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے۔ دونوں ممالک کے سلامتی مشیروں کے درمیان رابطے کا بحال ہونا اچھی خبر ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کشیدگی کے دوران بھی دونوں مشیروں کے درمیان رابطہ رہا۔

امریکہ پاک چین راہداری یعنی سی پیک کو تیزی سے تکمیل کے مراحل کی جانب بڑھتاہوادیکھ کر تلملا رہاہے۔ وہ پاکستان کو امریکی اثرورسوخ سے نکلتا اور اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہوتادیکھ کر سیخ پاہورہاہے۔ پاکستان کی حکومت اور عسکری لیڈرشپ نے مشترکہ طور پر ٹرمپ کو مناسب جواب دیا ہے۔ امریکہ ماضی میں پاکستان کی سویلین اور خاکی لیڈرشپ کے درمیان اختلافات کو ابھار کر اپنے مطالبات منواتارہاہے لیکن موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے اہم قومی امور پر سویلین اور فوجی قیادت کو ایک صفحے پر جمع کیا اور ہر اہم معاملے میں مشترکہ موقف پیش کیا گیا۔ امریکیوں کو اب راولپنڈی کے طواف کی ضرورت نہیں رہی جو بھی فیصلہ ہوتاہے وہ وزیراعظم ہاو¿س ہی میں ہوجاتاہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا فورم اہم خارجی اور دفاعی امورکے فیصلے اجتماعی طور پر کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے سابق وزیراعظم نوازشریف نے اس کابہت کم استعمال کیا۔

پاکستان ایک بہت مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک عالمی سپر پاور اس کے درپے ہے اور اس کے دوپڑوسی امریکہ کے ہمرکاب ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو سرنگوں کرنا ہے۔ عصری تاریخ میں پاکستان کی قیادت کو ایسی مشکل کا کبھی بھی سامنا نہیں رہا۔ ٹرمپ اور مودی دونوں نفسیاتی طورپر ایک جیسی ذہنی کیفیت کا شکار ہیں۔ دونوں طاقت، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ افغانستان کی سرکار بھی مودی اور ٹرمپ ہی کی طرح پاکستان کی مخالف ہے۔ ان حالات میں کشیدگی اور تصادم سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان کی قیادت سعودی عرب کے ذریعے امریکہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ نوازشریف اور شہباز شریف نے سعودی عرب میں شیخوں سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کی مدد کریں۔ معلوم نہیںآج کل امریکہ شیخوں کی سنتابھی ہے کہ نہیں۔ علاوہ ازیں سعودی خود اپنے مسائل میں بھی الجھے ہوئے ہیں اور پاکستان سے زیادہ خوش بھی نہیں۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood