محترم پوپ، آپ مسلمانوں کے پاؤں کیوں چومتے ہیں؟


\"husnainابھی تین چار دن پہلے ہم ٹی وی پر برسلز میں ہونے والے دہشت گردی کے تازہ واقعات دیکھ رہے تھے۔ وہ واقعات جن کا بیج بہرحال ان معصوم لوگوں نے ہرگز نہیں بویا تھا جو فصلیں کاٹنے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں کا قصور شاید صرف اتنا ہے کہ وہ اب بھی اس دنیا میں کسی مذہبی فرقے کو بے رحم اور شقی القلب نہیں سمجھتے۔ اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کسی مختصر سی دہشت پسند اقلیت پر کسی مذہب کے تمام ماننے والوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لوگ یہ ماننے پر شاید اس لیے مجبور ہیں کہ ان کی اقدار انہیں یہی سکھاتی ہیں۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ جرم سے نفرت کی جا سکتی ہے، انسانیت سے نفرت بہرحال نہیں کی جا سکتی۔ اور چوں کہ انہیں یہ سکھایا گیا اس لیے انہوں نے اپنے آس پڑوس کے ممالک میں بدامنی ہونے کے بعد وہاں سے کثیر تعداد میں ہجرت کرنے والوں کو اپنے یہاں پناہ دی۔

اس کڑے وقت میں کہ جب اپنوں نے منہ موڑ لیے، ان لوگوں نے انسانیت کا ثبوت دیا۔

یہ انسانیت انہیں بہت مہنگی پڑی۔ نئے سال کے شروع میں بھی انہیں اپنی ماؤں بہنوں کو باقاعدہ جنسی حملوں کا شکار ہوتے  دیکھنا پڑا اور پھر یہ سال انہیں باقاعدہ طور پر بھاری پڑتا چلا گیا۔ ابھی تک ہم لوگ ان سے ہمدردی کا اظہار کرنے میں بھی ہچکچا رہے ہیں۔ سب کو یاد ہے کہ جب پارسال ایک اور مغربی ملک میں دہشت گردی ہوئی تھی اور لوگوں نے ہمدردی میں سوشل میڈیا پر صرف تصویر بدلی تھی تو انہیں \"??????????\"کیا کیا دیکھنا پڑا تھا۔ دوستوں نے انہیں آس پاس کے برادر ممالک بلکہ اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات یاد دلائے تھے اور طعنے دئیے تھے کہ اس وقت تو تمہیں ہمدردی جتلانا کیا، دو لفظ بھی بولنا نہیں آ رہا تھا، زبان پر تالے پڑ گئے تھے، آج تم ہلکان ہوئے جاتے ہو۔ تو وہ بے چارے وہ وقت یاد کر کے زبانی کلامی افسوس بگھار رہے ہیں لیکن بہرحال اب ہمدردی دکھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

ابھی یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ ایک اور خبر پر نظر پڑ گئی، شرمندگی دوبالا ہو گئی۔ خبر یہ تھی کہ  پوپ فرانسس نے گڈ فرائیڈے سے قبل کی رسومات میں مسلمان پناہ گزینوں کے پاوں دھوئے اور انہیں پیار کیا۔ ایسا حسن سلوک دیکھ کر وہاں موجود کچھ بزرگ لوگ تو فرط جذبات سے رو پڑے اور جوان لوگوں نے پوپ کے ساتھ خوش ہو کر تصاویر بھی بنوائیں، پوپ نے سیلفی بنانے والوں کو بھی منع نہیں کیا۔

خبر پڑھتے ہوئے جو پہلا خیال دل میں آیا وہ یہ تھا؛

ہم انہیں بم چلا چلا کر ماریں گے اور وہ ہمارے پاوں دھوئیں گے اور انہیں چومیں گے،  ہے نا مزے کی بات؟

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب بھی عیار یہود و نصاری کی سازش ہے۔ وہ لوگ ڈرون بناتے ہیں، ہم پر حملے کرتے ہیں اور ادھر ہمارے ہم \"pope3\"مذہب پناہ گزینوں کے پاوں بھی چومتے ہیں۔ بہت ہی دوغلے لوگ ہیں، خدا ان کی سازشوں اور چاپلوسیوں سے بچائے۔

 ایک لمحے کے لیے غور کیجیے کہ انہیں ہم سے کیا چاہئیے؟ وہ کیوں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر مجبور ہیں؟ برسلز بم دھماکوں کے بعد جب پوری مغربی دنیا مسلمانوں پر بپھری ہوئی ہے، پوپ کو کیا سوجھی کہ وہ اس طرح کی گاندھی گیری کریں؟  وہ ایسے مورکھ کیوں ہو گئے کہ اپنے قاتلوں میں ہی گھسے جاتے ہیں، ان کے پیر چومتے ہیں، دھوتے ہیں اور پھر یہ بیان آتا ہے، \”ہمارے مذہب اور ثقافت مختلف ہیں لیکن ہمیں آپس میں امن اور بھائی چارے سے رہنا ہے۔\”

یہ ان کا لبرل ازم ہے۔ اب اسے آپ ان کی وضع داری کہہ لیجیے یا لبرل اقدار کو برقرار رکھنے کی کوشش، لیکن اگر محسوس کریں تو یہ بہت ہی کشادہ دلی سے اٹھایا گیا قدم ہے۔

سچ پوچھیے تو کل چوبیس مارچ کو اٹلی میں پوپ فرانسس نے یہ جو حرکت کی ہے، ہم پر تو گھڑوں پانی پھیر گئی! ہمارے ہاں ڈھنگ سے اہل مذہب کی صفوں میں سے برسلز دھماکوں کی مذمت میں ایک بیان بھی نہیں آیا، ایسا بیان کہ جو انگریزی محاورے Clarity of thought کے ساتھ ہو اور وہاں پوپ صاحب نے آس پاس مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت بڑھتے دیکھ کر فوراً ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنا شروع کر دئیے۔ یہ الگ رہی کہ وہ چھینٹے کسی پر تیزاب بن کر پڑیں، اور کوئ انہیں اپنے اوپر سے پھسل جانے دے۔

\"pope2\"اب ایک اور معاملہ دیکھیے، یہ پیر دھونے اور چومنے کی رسم وہ تھی کہ جو مسیح علیہ السلام نے آج یعنی گڈ فرائیڈے کو مصلوب ہونے سے ایک رات پہلے اپنے حواریوں کے ساتھ کھانا کھا کر اور پھر ان کے پیر دھو کر شروع کی تھی اور مسیحی حکایات کے مطابق یہ کہاتھا کہ میری یاد میں میرے بچو تم بھی ایسے کیا ہی کیا کرنا۔ اور اسی کی یاد میں روائتی طور پر بارہ کیتھولکس کے پاوں دھو کر جمعرات کے روز ادا کی جاتی ہے۔ تو ایسے میں بارہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے پاوں دھونا اور انہیں چومنا، کیا ہی خوب بدعت نکالی بھئی پوپ نے، واہ واہ! اور پھر ان کی مخالفت میں بھی کسی نے کھڑے ہو کر مکے نہیں لہرائے۔ کمال لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں تو چاند دیکھنے پر بھی اتفاق  نہیں ہو پاتا چہ جائے کہ ایسا کوئی عملی قدم اٹھایا جائے جس سے عالمی امن کو فروغ ملے۔ کئی بار عید قرباں پر سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث چلتی ہے کہ دو گائے، تین دنبے اور چھ بکرے کرنے کی بجائے ایک دنبہ ذبح کر لیجیے اور باقی پیسے بچا کر مستحقین کو خاموشی سے دے دیجیے لیکن بات آگے نہیں بڑھتی، تو ایسے قدم کی توقع تو ہنوز عالم خیال ہو گی۔

ہم تاریخ کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ پوپ اس مقام کے حامل ہوتے تھے جہاں وہ صرف حکم چلایا کرتے تھے اور آج پوپ ہمیں ایک مثالیہ بن کر دکھا رہے ہیں کہ دنیا والو، دیکھ لو، امن کی سمت چلنا ہے تو راستہ یہی ہے، اور یہ فعل مذہبی عالموں کی لچک کا بھی ایک عالی شان مظہر ہے۔  دوسری سمت میں دیکھیں تو ہمارے یہاں تو خاکروب کی اسامی میں باقاعدہ مشتہر کی جاتا ہے کہ صرف مسیحی درخواست دینے کے اہل ہیں، گویا اقلیت کو ہم یہ مقام دیتے ہیں۔

اس وقت ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے مذہبی راہنماوں کے یہاں سے سے پوپ کے اس اقدام کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا جائے اور جوابی خیر سگالی کے طور پر کم از کم کچھ ہمدردی بھرے بیانات ہی دے دئیے جائیں۔ وہ کیا کہتے ہیں، بنیا گڑ نہ دے، گڑ کی سی میٹھی بات ہی کر لے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments