کھینچے ہے مجھے کفر….


\"zeffer_imran\"صفا و مروہ کی سعی کرتے، کوئی تیسرے چکر میں، دائیں ہاتھ کے دروازے سے، جینز میں ملبوس، سر پر اسکارف اوڑھے، بھرے بھرے نین نقش والی، ایک لبنانی دوشیزہ کو داخل ہوتے دیکھا۔ پہلے حیرت ہوئیی، کہ اس مقام پر اور فرنگی لباس میں؟ ہم زاد نے فوراً سمجھایا، اس میں کیا برائی ہے؟ میرے لبوں پر، بے ساختہ ایک فلمی نغمہ آ گیا۔ امی نے سرزنش کی، شرم کرو، شرم۔

نغمہ لبوں پر رہا، لیکن نغمے کا مخاطب خدا کو کرلیا۔ شاید پہلے بھی میں خدا ہی سے مخاطب تھا۔ لیکن اب شعوری طور پر تھا۔

یہ واقعہ آج مجھے کیوں یاد آیا؟ ہم یہاں اکثر مذہبی مباحثے کرتے ہیں، اور مثالیں اپنے اس معاشرے کی دیتے ہیں۔ گویا، یہ معاشری عین اسلامی معاشرہ ہے۔ سب سے اچھے مسلمان اسی خطے میں پاے جاتے ہیں، عرب کے مسلمان تو بس ایویں سے ہیں۔ اور یہ بھی کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ وغیرہ۔

چالیس روزہ اس یاترا نے میری زندگی بدلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے میں بھی بہت پکا مسلمان تھا، توتے کی طرح سدھایا ہوا، ایسا مسلمان جس کی وجہ سے پاکستان اسلام کا قلعہ بنا۔ سوال کرنا کفر کرنے کے مترادف تھا۔

وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے، شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی، اہل قرآن، اہل تشیع مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوئیں، غیر رسمی مکالمے ہوئے۔ میری قسمت، کہ سبھی روشن خیال زائیرین میرا مقدر ہوئے، ایک بھی مولوی نہ تھا۔ میرے کڑوے کڑوے سوالوں کا میٹھا میٹھا جواب دینے والے، اللہ کے یہ نیک بندے، جنھوں نے مجھے سمت دکھائی۔

باتیں اتنی ہیں، کہ ترتیب دینا مشکل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں دو خاص واقعے  بیان کرتا ہوں۔ ایک دن کعبے کے طواف کے بعد، ایک مقامی مسلمان سے بات چیت ہوئی۔ باتوں باتوں میں وہ کہہ گیا، کہ پاک و ہند کی خواتین نہایت بے شرم ہیں۔ میں چونکا، کہ اس نے یہ کیا کہہ دیا۔ استفسار کرنے پر جو کہا، وہ میرے الفاظ میں کچھ اس طرح ہے۔ \”دیکھو تو سہی کیسا لباس پہنتی ہیں، بالکل ننگی لگتی ہیں\”۔

میں نے اس کے دعوے کو پرکھنے کے لیے نگاہ دوڑائی۔ انتہائی اختصار سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ شلوار قمیص مجھے فحش دکھائی دینے لگا۔ اس کے بر عکس، انڈونیشیائی، ترکش اور عرب خواتین کہیں بہتر لباس میں تھیں۔

دوسرا واقعہ بھی خانہ کعبہ ہی کا ہے۔ میں طواف کر کے ذرا سانس لینے کے لئے مقام ابراہیم کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک ترک باشندے نے سرسری گفت گو کا آغاز کیا۔ ترک، پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اس ترک کا سرشار چہرہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا۔ وہ مجھے فخر سے بتا رہا تھا، کہ مسجد الحرام کے سرخ اینٹوں سے بنے محراب خلافت عثمانیہ کی مہربانی ہے۔ وہ ترکوں کی عظمتِ پارینہ پر فاخر، اور عربوں کی نا لائقی پر شکوہ کناں دکھائی دیا۔ شاید مجھے جینز پہنے دیکھ کر پوچھا ہوگا، کیا میں امریکا سے آیا ہوں؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، جی نہیں پاکستان سے۔ وہ چپ چاپ اٹھ کر مجھ سے دور چلا گیا۔ ان دنوں امریکی افواج افغانستان میں اتری تھیں، اور پاکستان کی دہشت گردی کے چرچے جا بہ جا تھے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments