اس ہفتے کی کتاب: ہومو ڈیوس


پچھلے برس انہی اوراق پر امام عاصم بخشی کی ایک تحریر ’ سال رواں میں پڑھی گئی کچھ کتابیں اور ان کا مختصر تعارف‘ دو اقساط میں شائع ہوئی۔ بخشی صاحب سے متاثر ہونے کی جہاں درجنوں وجوہات ہیں، وہاں ایک وجہ ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں استاد کہتے ہیں اور ہم انہیں امام کہتے ہیں۔ اس تحریر میں سب سے متاثر کن بات بخشی صاحب کی پڑھی گئیں کتابوں کی تعداد تھی۔ سال میں جہاں 52 ہفتے ہوتے ہیں وہاں بخشی صاحب نے 65 کتابوں پر تبصرہ لکھا تھا۔ آدمی سوچتا رہ جاتا ہے کہ ایک شخص کا مطالعے سے کتنا شغف ہو گا کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی، نجی مصروفیات، لکھنے لکھانے کے دیگر مشاغل کے ساتھ ہفتے میں ایک کتاب سے زیادہ پڑھ لیتا ہے۔ اس سے اپنے لئے ایک راہ متعین کی کہ اس برس جو بھی ہو امام بخشی کا ریکارڈ تو بہرحال برابر کرنا چاہیے۔ تاباں نے لکھا تھا ’ کس کس طرح کی دل میں گزرتی ہیں حسرتیں‘۔ ہفتے میں ایک کتاب پڑھنا تو درکنار دو ہفتوں میں ایک کتاب پوری ہو جائے تو غنیمت ہے۔ مشکل یہ پیش آئی کہ امام بخشی نے اس سال مزید 55 کتابوں پر تبصرہ لکھ دیا۔

مطالعہ کیسے کیا جائے؟ اس پر کلام کرنا اساتذہ کا کام ہے اور انہی صفحات پر امام بخشی کی ہی ایک تحریر اسی موضوع پر مل جائے گی۔ کیا پڑھنا چاہیے اس کا تعلق بھی قاری کے ذوق پر منحصر ہے تاہم نوجوان لکھنے والوں کے مرشد وجاہت مسعود نے انہی صفحات پر ایک فہرست مرتب کی ہے۔ سال بھر کی کتابوں پر تبصرہ تو مشکل کام ہے اس لئے اب ارادہ یہ بنا کہ ہفتہ دس دن یا شاید پندرہ، بیس دنوں میں جو بھی کتاب پڑھی جائے اس کا ایک مختصر تعارف لکھا جائے۔

کتاب۔ Homo Deus: A Brief History of Tomorrow
مصنف۔ Yuval Noah Harari
پبلشر۔ Vintage
ISBN:978-1-784-70393-6

یوال ہرارے بنیادی طور پر تاریخ دان ہیں۔ ہیبرو یونیورسٹی آف پروشلم میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کو شہرت 2011 میں شائع ہونے والی کتاب (Sapiens: A Brief History of Humankind) ملی۔ Sapiens انہوں نے عبرانی زبان میں لکھی تھی۔ 2014 میں جب اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو اس نے یوال کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ دو سال کے قلیل مدت ان اس کا ترجمہ کم و بیش دنیا کی تیس سے زیادہ میں ہوا۔ یہ کتاب بنیادی طور انسانی تاریخ کا قریباً 75000 سالہ تعارف بیان کرتی ہے۔ نوع انسان (Homo Sapiens) کی ابتداء کیسے ہوئی۔ ارتقاء کے کن مراحل سے اولین انسان گزرا۔ زمین پر دیگر جانداروں کے مقابلے میں نوع انسان نے اپنی حاکمیت کیسے قائم کی۔ انسان نے اپنی بقا کے لئے کیسے کیسے مفروضے قائم کیے۔ یوال ہرارے مذہب، ریاست، پیسے، کارپوریشنز، اقوام جیسے دیگر چیزوں کو انسان کے قائم کردہ مفروضے قرار دیتا ہے۔ کتاب کا خاتمہ اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ نوع انسان اپنی طاقت کی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور اب شاید وہ وقت آ چکا ہے کہ زمین پر انسان کی یہ طاقت کسی اور جنس کو منتقل ہو جائے اور نوع انسان (Homo Sapiens) کا خاتمہ ہو جائے۔

Homo Deus اسی مفروضے ( Homo Sapiens کا خاتمہ) پر مفصل بحث ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہرارے بتاتا ہے کہ نوع انسان اپنی تاریخ میں ہمیشہ سے قحط، طاعون اور جنگ سے نبرد آزما رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ نوع انسان کم و بیش ان مشکلات سے نجات پا چکا ہے۔ اب نوع انسان کا اگلا ہدف بقائے دائمی (immortality) ، راحت (bliss) اور خداوندانہ حیثیت (divinity) حاصل کرنا ہے۔

یوال بتاتا ہے کہ نوع انسان نے اپنے سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی نظام اس بنیاد پر قائمکیے ہیں کہ نوع انسان میں ایک ابدی روح اور شعور موجود ہے جبکہ ارتقاء کی داستان اس سے مختلف ہے۔ زمین پر نوع انسان کی حکمرانی کی وجہ اس میں کسی ابدی روح یا شعور کا ہونا نہیں کیونکہ وہ تو دیگر جاندار بھی رکھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ نوع انسان نے ایک تو اکثریت میں تعاون کرنا (cooperate in large numbers) سیکھ لیا اور دوسرا حقیقت ( وہ جو کچھ بھی ہے) کا ایک اجتماعی مفہوم ( shared understanding of reality) اخذ کر لیا یا کم ازکم اس پر اتفاق پیدا کر لیا۔ حقیقت کا یہی اجتماعی مفہوم ہے جس نے نوع انسانی کے سماج کو منظم رکھا اور انسان نے دیگر جانداروں کے مقابلے میں زمین میں حاکمیت حاصل کر لی۔

طویل جدوجہد کے بعد نوع انسان اب جدیدیت کی انتہا پر کھڑا ہے۔ جدیدیت بذات سودا (deal) ہے۔ جدیدیت سے پہلے جدوجہد یہ تھی کہ انسان طاقت و اختیار بانٹنا سیکھ رہا تھا۔ جدیدیت تک پہنچ کر نوع انسان نے طاقت اور اختیار بانٹا سیکھ لیا۔ پس جدیدیت کا نوع انسان اس پر یقین نہیں رکھتا کہ انسان کسی عظیم تکوینی منصوبے (great cosmic plan) کا حصہ ہے۔ اب انسان قادر مطلق ( omnipotence) حیثیت حاصل کرنے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

اس کے بعد یوال بتاتا ہے کہ کیسے انسان اب نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے ابدی حیات اور مستقل خوشی حاصل کرے گا۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان سائنس میں اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اگلی ایک صدی تک شاید تمام انسانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرے۔ جو بھی اعضاء ناکارہ ہوں گے انسان ان کو بدل دے گا۔ پلاسٹک سرجری سے ہمیشہ جوان رہے گا۔ ایسے نینو روبوٹس تیار کرے گا جو انسانی جسم میں مستقل رہیں گے اور کسی بھی بیماری کے جراثیم پیدا ہونے پر خودکار طریقے سے ان کو ختم کریں گے۔ وہ بتاتا ہے کہ غم اور خوشی کا تعلق باہر کی دنیا سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک جسمانی معاملہ ہے۔ انسان جب غم یا خوشی کی کیفت میں ہوتا ہے تو جسم میں کچھ کیمیائی تبدیلی ہوتی ہے۔ کچھ نیوروٹرانسمیٹر پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو خوشی یا غم کی کیفیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ مستقبل میں انسان ایسی ادویات تیار کر لے گا جو جسم میں ایسے نیوروٹرانسمیٹر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھے گا جو انسان کو مستقل خوشی کی کیفیت میں رکھتے ہیں۔

شعوری ذہانت، عظیم نینو حسابی ( superior non۔ conscious algorithms) سے بدل جائے گی۔ ایسی حیات جاوداں حاصل کرنے کے بعد جب انسان صرف کسی حادثے کی صورت میں مرے گا ورنہ صدیوں تک زندہ رہے گا، اس کے انسانی سماج بے شمار نئے اثرات مرتب ہوں گے۔ تمام معاشی نظام بدل جائیں گے کیونکہ ہر انسان کی زندگی کی منصوبہ بندی صدیوں پر مشتمل ہو گی۔ تمام سیاسی نظام بدل جائیں گے۔ پیداوار کے ذرائع مسلسل بڑھانے پڑیں گے۔ انسان کی سماجی زندگی میں ایک جوہری تبدیلی واقع ہو گی۔ جب ایک انسان سو یا سو سال زندہ رہے تو معلوم نہیں وہ کتنے بچے پیدا کرے گا؟ کتنی شادیاں کرے گا۔ سو سو سال تک کتنے بچوں کو یاد رکھے گا۔ بچوں کے بچے دادا، دادی کے ساتھ جسمانی طور پر برابر ہو جائیں گے تو سماج کی صورت یکسر بدل جائے گی۔ طاقت جب شعوری انسانیت سے حسابی انسانیت (digital / algorithmic humanism) کو منتقل ہو جائے گی تو انسان کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور یوں زمین پر انسان نامی جنس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

کتاب سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ مگر دونوں کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور نوع انسان کی تاریخ اور مستقبل کا ایک خاکہ ضرور کھینچتی ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah