جھونکا ادھر سے گزرا نسیم بہار کا ۔۔۔


بچپن کی اولین یادوں میں ایک، نسیم ماموں کی برات کی تیاریوں کا منظر ہے۔ امی کا مجھے صبح سویرے اٹھانا، ڈرم میں ذخیرہ کیے یخ پانی سے میرا منہ دھلوانا، میرا رونا۔ برات کے ہم راہ راول پنڈی سے، حاجی پورہ کنک منڈی سیال کوٹ کی تنگ گلی تک کا سفر؛ اس گلی میں شہنائی بجانے والے کا والہانہ انداز؛ آر سی کولا سے براتیوں کی تواضع، کولا کی وہ تیزی جس سے سر کے پچھلے حصے میں ٹیس کی اک لہر اٹھتی ہے، اور بے ساختہ ہاتھ ٹیس والے مقام پر جا پڑتا ہے۔

نسیم ماموں اٹامک انرجی کمیشن میں ملازم تھے؛ تن خواہ کم ہوگی، تبھی ننکاری بازار راول پنڈی سے تھوک کے بھاو چاے کی پتی خرید لاتے، اور مومی تھیلیوں میں بھر کے پرچون کی دُکانوں کو سپلائی دیتے تھے، تاکہ کچھ پس انداز کیا جاسکے۔ وہ دن بھی یاد ہیں، جب راحیلہ مامی سالن میں مرچیں تیز رکھتیں تھیں، نسیم ماموں کھانا کھاتے سر کھجانے لگتے کیوں کہ لال مرچ کی تیزی برداشت نہ ہوتی تھی۔ ایسا تو نہیں تھا کہ راحیلہ مامی کو کھانا بنانا نہیں آتا تھا۔ ان جیسا کھانا خاندان بھر میں کوئی نہیں بناسکتا تھا۔ وہ گھاس بھی بنائیں تو کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جاے۔ بہت بڑے ہوکے یہ معلوم ہوا کہ مامی اس لیے ایسا کرتی تھیں، کہ سالن کم استعمال ہو، اور دو سے تین وقت تک چل سکے۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا تھا، شاید یہ ان دنوں کا منظر ہے، جب ماموں کی ملازمت نہیں تھی۔ میرے ننھیال میں عورت کا خاوند کو نام لے کر پکارنا معیوب سمجھا جاتا تھا، (اب یہ ماضی کا قصہ ہوا) لیکن وہ ماموں کو، ’نسیم صاحب‘ کہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ ان سے ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا۔

میری پرورش ننھیال میں ہوئی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام والا بڑا سا کنبہ تھا۔ میں اپنے مامووں اور خالاوں کا چہیتا رہا۔ وہ اپنی اولاد کی سنی ان سنی کر کے میرے ناز اٹھاتے۔ نسیم ماموں اپنے سب بہن بھائیوں میں خوش لباس تھے، اور سب میں الگ تھے۔ گھر میں واحد ٹیپ رِکارڈر پلیئر تھا، اور وہ نسیم ماموں کا تھا۔ مجھے مہدی حسن سے اس لیے بھی چڑ رہی کہ نسیم ماموں کے پاس مہدی حسن کے گانوں کے سبھی البم تھے، جو اکثر سننا پڑتے۔

امی بتاتی ہیں، کہ نسیم ماموں نے دیر سے بولنا سیکھا تھا۔ غالبا چھہ سات سال کی عمر میں۔ نسیم ماموں کے بارے میں مشہور رہا، کہ کسی نے کوئی بات بتائی، کہ یہ متعلقہ شخص تک پہنچا دینا، تو سمجھو پیغام نہیں پہنچا۔ میں نے امی کی زبانی یہ قصہ سنا کہ ان کے بچپن میں کوئی اطلاع دینے آرہا تھا، کہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ گلی میں ننھے نسیم کو کھیلتے دیکھ کر اطلاع دی اور لوٹ گیا۔ بہت بعد میں گِلہ پہنچا کہ آپ لوگ جنازے میں شریک نہیں ہوے، جب کہ آپ کے بیٹے کو اطلاع دی تھی۔ کم سن نسیم سے استفسار کیا گیا، تو انھوں نے سادگی سے کہا، اس نے یہ تھوڑی کہا تھا، کہ گھر جاکے بتا دینا، بس مجھے بتا کر لوٹ گیا۔

نسیم ماموں‌ کے جوتے ہوں، یا موٹرسائیکل؛ وہ اسے خوب چمکا کے رکھتے۔ بوٹوں پر لہسن رگڑ رگڑ کے انھیں چمکاتے، ایسا کرتے اُن کے سوا کسی کو نہیں دیکھا۔ نسیم ماموں بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، نہ کسی بچے کو گود میں اٹھاتے تھے، بچوں پر ان کا رعب بہت تھا؛ ایک بار میں ٹی وی لگانے کی ضد کررہا تھا، وہ منع کرتے رہے، میں باز نہ آیا، تو انھوں نے تھپڑ جڑدیا۔ میں نے رو رو کے آسمان سر پہ اٹھالیا، وہ شرمندہ کھڑے رہے، جیسے کوئی جرم کر بیٹھے ہوں۔ زندگی بھر کا یہ واحد تھپڑ ہے جو ان سے وصول کیا۔

میرے صحیح طرح ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ کمانے کی غرض سے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ سات آٹھ برس بعد لوٹے تو اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ مل کے کوٹ لکھ پت میں شو فیکٹری لگالی۔ اس میں سے نقصان اٹھایا، تو سبھی پارٹنرز نے مل کے، بچے کھچے سرماے سے سونے کی چین بنانے کی فیکٹری لگالی۔ یہ کاروبار خوب چمکا۔ تب تک میں گجرات میں انسٹے ٹیوٹ آف سرامکس کے فائنل ایئر میں تھا۔ سناروں کے کام میں گھر کے بچے اس لیے بھی رکھے جاتے ہیں، کہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق، ان کے دانت گنے ہوے ہوتے ہیں، پتا ہوتا ہے کون کس کردار کا ہے۔ انھیں کاری گروں کی ضرورت تھی، تو امی سے کہا گیا، کہ مجھے کام کے لیے ان کے پاس لاہور بھیج دیا جاے۔ میں نے فورا انکار کردیا، لیکن جاتے ہی بنی۔

لاہور نادر آباد میں نسیم ماموں کے گھر میری سکونت تھی، صبح انھی کے ساتھ کام پر محلہ کرشن نگر جاتا، اور چھٹی کے وقت انھی کے ساتھ گھر لوٹ آتا۔ میرا جیب خرچ ہی کیا تھا، دن میں تین چار سگرِٹ، اور بس۔ پہلی تن خواہ ملنے کا دن آیا، تو ایک ماموں نے کہا، کیوں نا یہ تن خواہ تمھاری امی کو پنڈی بھیج دی جاے! منہ پھٹ تو میں مشہور ہوں، ترنت جواب دیا تو کام کے لیے بھی امی کو بلا لیں۔ مسکراے اور تن خواہ میری ہتھیلی پر رکھ دی۔ سب میں تن خواہ نسیم ماموں ہی بانٹا کرتے تھے۔ تن خواہ والے دن ان سے اس لیے بھی الجھتا کہ مجھے نئے نوٹ دیے جائیں، اور وہ ہنستے ہوے کہتے، ”تو نے یہ نوٹ جا کے زمین میں دبانے ہیں؟ خرچ ہی کرنے ہیں، ناں! نئے نوٹوں سے بھی اتنی ہی شئے ملنی ہے، جتنی پرانوں سے“۔

سال بھر گزرا تو میں نے کہا، مجھے آپ کے گھر نہیں رہنا، الگ رہوں گا۔ نسیم ماموں نے اجازت نہ دی۔ پوچھتے رہے کہ کیا وجہ ہے، کوئی کمی ہے؟ یا ناراضی ہے؟ میں کہتا میرا کوئی دوست آے گا، تو کہاں ٹھیراوں گا؟ وہ جواب دیتے جس دوست کے لیے یہ سمجھتے ہو، اپنے گھر ٹھیرایا جاسکتا ہو، اسے یہاں ٹھیرا لیا کرو۔ میں پھر بھی نہ مان کے دیا۔ بہت ضد کی تو کہنے لگے، ”تمھاری ماں کیا کہے گی، بھائی نے میرے بیٹے کو گھر سے نکال دیا؟“ میں نے پنڈی کال کی، امی نے بھائی سے کہا، دفع ہونے دے، جہاں جانا چاہتا ہے۔ تب ماموں نے اجازت دے دی۔

میں نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا تو پہلے ڈرامے کی رِکارڈنگ کے لیے نسیم ماموں کے گھر ہی کو لوکیشن بنایا۔ راحیلہ مامی عملے کو کھانا بنا کے دیتیں۔ 2005ء میں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ میرے وہ دوست آج بھی انھیں یاد کرتے ہیں، جنھوں نے ان دنوں ان کے ہاتھ کا ذائقہ چکھا تھا۔

نسیم ماموں کے بچوں کی شادیاں ہوگئیں۔ مامی کے جانے کے بعد وہ اکیلے سے ہو گئے۔ اتنا وقت گزرنے کے دوران، وہ ماموں سے میرے دوست بن چکے تھے۔ میں ان سے کہتا، ماموں آپ شادی کرلیں۔ وہ مسکرا اٹھتے، ”ڈھونڈا ہے کوئی رشتہ؟“، یا کہتے، ”یار چھوڑ“۔

میں لاہور ہوتا، پنڈی یا کراچی؛ نسیم ماموں سے رابطہ رہتا۔ وہ میری خبر رکھتے، کام کا احوال پوچھتے۔ کوئی بات ہو مشورہ کرلیتے۔ ان دنوں‌ میرا ایک نجی مسئلہ چل رہا تھا، ماموں رابطہ کرنا چاہ رہے تھے اور میں کنی کاٹ رہا تھا۔ نومبر 2017ء کے وسط میں، میں لاہور گیا۔ ”چاے خانہ“ میں بیٹھا ہوا تھا، کہ ان کی کال آگئی۔ پوچھا کہاں ہو؟ میں ہمیشہ سچ نہیں بولتا، لیکن جھوٹ سے اجتناب برتتا ہوں۔ بات گھمادی، سوال کا جواب گول کردیا۔ انھیں کہتا، لاہور میں ہوں تو ملنے کا کہتے، میں بوجوہ ملنا نہیں چاہتا تھا۔ بعد میں انھیں امی سے پتا چل گیا کہ میں لاہور میں تھا، تو حیرت ہوئی کہ مجھے کیوں نہیں بتایا۔

کچھ ہی دن بعد میں کراچی چلا آیا؛ کراچی آ کے خبر ملی کہ نسیم ماموں کی طبیعت ناساز ہے۔ کال کی تو نحیف سی آواز سنائی دی، مجھے یقین نہیں آیا، میں ماموں سے بات کررہا ہوں۔ میں نے یہ کہ کر کال منقطع کردی کہ زیادہ دیر بات نہ کریں، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ گاہے بگاہے خبر لیتا رہا۔ حالت سنبھل جاتی، پھر بگڑجاتی۔ کراچی آکے اتنا مصروف رہا کہ چاہتے ہوے بھی ان سے ملنے لاہور نہ جاسکا۔ یہی سوچا کہ یہاں‌ کا کام ختم کرلوں، پھر لاہور جاوں گا۔

پانچ جنوری 2018ء کی صبح امی کا کال آئی تو اٹینڈ کرنے سے پہلے مجھے پتا تھا، کہ کیا اطلاع ملنے والی ہے۔ ”اٹھ جا بیٹا، نسیم ماموں نہیں رہے“۔ میں اٹھ تو گیا، لیکن نہ مجھ سے رویا گیا، نہ افسردگی چھائی۔ نہ کوئی اور تاثر۔ بستر پہ بیٹھا سوچتا رہا کہ فلائٹ لوں اور جنازے میں شریک ہوں، چوں کہ کراچی میں کام اٹکا ہوا ہے، اس لیے رات کی فلائٹ سے لوٹ آوں گا، یا اگلی صبح۔

تھوڑی دیر بعد یہ خیال آیا، کہ جس کو جیتے جی ملنے نہ گیا، اس کو بے جان پڑے کیسے دیکھے گا اور کیوں!؟ تو نے دیر کردی بھانجے۔ اب مت جا!

سارا دن یونھی گزرگیا؛ میں جنازے پہ نہ گیا۔ نہ نسیم ماموں کے بچوں کا کال کر کے تعزیتی بول کہے؛ نہ امی سے بات کی، نہ خالاوں سے رابطہ کیا، نہ دوسرے مامووں سے، جن کا بھائی نہیں رہا۔ دن سے رات ہوئی۔ میں نے دل میں عہد کیا، اب اس گھر میں نہیں جاوں گا، جہاں ماموں کو چلتے پھرتے ہنستے بولتے دیکھا ہے۔ مجھے لگا وہاں صرف نسیم ماموں ہی تھے جو نہیں رہے، اور کوئی تھا ہی نہیں، جس سے تعلق تھا۔ یک دم مجھے احساس ہوا، میں یتیم ہوگیا ہوں۔ میں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran