شیلا کی جوانی …. نانی کی کہانی


ہاضمے کا چورن لے لو۔ دو خوراکوں میں شرطیہ آرام، ورنہ پیسے واپس۔ میرا لکھا ہضم نہیں ہوتا تو چورن پہلے کھا لو۔ ویسے جس کی جیب میں کچھ چلا گیا تو وہ سیدھے راستے سے باہر کبھی نہیں نکلا۔ ہماری دنیا کا پہلا جھوٹ، پیسے واپس۔ ٹرمپ کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے۔ جو چورن آج بانٹنے والی ہوں، اس کے کوئی پیسے نہیں لوں گی، بس آپ کھا لیجئے گا۔ یہ دوسرا سچ کہ ہم ندیدے ہیں، مفت کا مال نہیں چھوڑتے۔ احمد پور شرقیہ میں جانیں گنوا دیں، مفت کا تیل نہیں چھوڑا۔

“ہم سب” کے قارئین سے درخواست ہے کہ مجھے اپنے شہر ملتان کی دیواروں کی صفائی کرنا ہے۔ کون کون تعاون کر رہا ہے۔ لوٹا بالٹی چونا لے کر آ رہا ہے، مجھے مردانہ کمزوری کے اشتہار مٹانا ہیں۔ نری فحاشی ہے۔ میرا پوتا نو برس کا ہے۔ اچھی اردو پڑھ لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے مرد کمزور نہیں ہوتے، وہ تو بابا کی طرح سب سے طاقت والے ہوتے ہیں۔ اسے کیا بتاﺅں کہ تیرا بابابھی مجھ سے سیکھ پڑھ کر، میرا دودھ پی کر، میری جوانی کے بدلے طاقتور ہوا ہے۔ یہ اشتہار مٹواﺅ میرے ساتھ۔، چونکہ اگلا الیکشن ہونا ہے، اس لیے پچھلے الیکشن کے پوسٹر بھی اتارنا ہیں۔

اچھا مجھے ایک فوج درکار ہے رضا کاروں کی جو سڑک کے کنارے پیشاب کرنے والوں کو پکڑ کر انہیں استنجا خانہ دکھائیں اور اُنہیں تعلیم دیں کہ بھیا پیشاب عورتوں کو بھی آتا ہے مگر وہ تو سڑک کنارے نہیں بیٹھ جاتیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو پانی کم پی کر گھروں سے نکلو۔ میری چھوٹی بیٹی کہتی ہے، امی اس بندے کی دُم ہے مگر آگے کیوں؟ میں اس بچی کی آنکھوں میں وہ منظر کیسے چھینوں؟ مفکرو، یہ بھی بتا دو۔

کچھ فلموں کے پوسٹر بھی اتارنا ہیں جنگلی حسینہ عرف کبڑا عاشق۔ مجھے نیم عریانی سے کوئی تکلیف نہیں۔ بس یہ نام بے تُکا ہے۔ ویسے اس پوسٹر کی ہیروئین کو دیکھ کر میں احساس کمتری میں کچھ دیر کو چلی گئی۔ کہ کاش میں جنگل میں رہتی، اس کی طرح چاہی جاتی خیر یہ میری کُلی طور پر ذاتی خواہش ہے۔ میں اس سچ کو مان گی کہ میں ایک اعلیٰ معاشرے کی عورت ہوں جس کے مرد جوش وخروش سے یہ فلم دیکھنے جا رہے ہیں تو کیا ہوا۔ مرد تو مرد ہیں۔ اچھا مجھے سٹورز پر کام کرنے والی عورتوں کا ماہانہ وظیفہ بھی بندھوانا ہے۔ مجھے اچھا  نہیں لگتا کہ مرد انہیں سسٹر جی، باجی، بہن کہنے کے بعد دوکان سے نکلتے ہی فقرے بازی کرتے ہیں۔ اب یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا وہ خواتین بلکہ نوجوان لڑکیاں ہٹاﺅں یا مردوں کو۔ بہرحال مجھے چندہ چاہیے۔ اکاوئنٹ نمبر کے لیے ادارے سے رابطہ کریں۔

وہ جو چوک پر کھڑا سپاہی ہے نا اس نے بھی بڑی کھپ ڈالی ہوئی ہے۔ بلا وجہ چالان کاٹنا چاہتا ہے مگر کاٹتا بھی نہیں۔ بس ڈرائیور کو سائیڈ پر لے جا کر جانے کیا کُھسر پُھسر کرتا ہے۔ مجھے وہ سننا ہے، کوئی ان کے درمیان ہوئی باتیں سنا دے مجھے، اللہ بھلا کرے گا۔ ارے ارے اتنی گندی گالیاں کیوں دے رہے ہیں، یہ لڑکے سرعام۔ میرے تو کان شرم سے لال ہو رہے ہیں۔ مجھ سے گزرنے والی ہر لڑکی کے کانوں پر ہاتھ نہیں رکھے جائیں گے آپ ذرا ان کو بھی ڈانٹ دیں کہ اتنی غلیظ گفتگو چوک پر کھڑے ہوئے نہیں کرتے۔ میں نے منع کیا تو کہنے لگے اس مائی کو بڑی گرمی چڑھی ہے۔ کوئی تگڑا جوان آگے آ کر روکے یا کوئی بزرگ ہی کان کھینچے۔ ان کے بڑی سیکسی گالیاں ہیں۔ اللہ توبہ۔ گالیوں میں پوری پورن مووی ہی چل گئی ہو، بس تصویر ہی نہیں آ رہی ہے۔

میں پیدل چلنے والوں میں سے ہوں مگر ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہوں۔ پیدل جاتی ہوں مگر نہایت تیار شیار ہو کر، سٹرک پکی تو ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں اب کچھ ٹوٹ سی گئی ہے حالانکہ پچھلے سال ہی بنی تھی۔ میرا پاﺅں مڑ مڑ جاتا ہے اور شلوار کے پانچے گرد آلود ہوتے ہیں وہ الگ۔ سڑک کیوں ٹوٹ گئی؟ اتنی پکی تو بنی تھی۔ بس یہ پتہ کروا دیں تاکہ آئندہ میں عوام سے کہوں کہ بھائی سڑکیں نہ توڑو، میرے پاﺅں میں موچ آ جاتی ہے اور سکول والے یومیہ 333 روپے چھٹی کرنے کے کاٹ لیتے ہیں۔

ایک تو میں نازک بھی بہت ہوں۔ جگہ جگہ گندگی کے ہونے کی وجہ سے مجھے سکن ریش اور سانس میں تنگی ہوتی ہے۔ میں ماسک چڑھا لوں گی جھاڑو پکڑتے وقت۔ آئیں آج کل دھوپ نرم گرم ہے۔ مل کر صفائی کریں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ مگر یہ کیا دیکھ رہی ہوں میں کہ میرے محلے والوں کی نیت ہی صاف نہیں۔ اکیلی رہتی ہوں نا۔ رات کے دس بجے ساتھ والے صاحب آکر چینی مانگتے ہیں۔ انہیں میں سوئی ہوئی پسند نہیں آتی۔ مجھے تو یہی لگتا ہے۔ ورنہ کام سے واپسی پر چینی لیتے آتے۔

ہاں، مجھے گلی کے بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک گراونڈ چاہیے کیونکہ کل ہی ایک بچہ کھیلتے ہوئے کھلے ڈھکن کے گٹر میں گر گیا تھا۔ کوئی نشئی لے گیا تھا ڈھکن۔ اس نشئی کو ڈھونڈ کر اس سے پوچھ دیں۔ کہ وہ ڈھکن کیوں لے گیا؟ اسے کوئی اور کام نہیں ہے کیا؟ شاید نہیں ہو گا۔ ملک میں بے روز گاری عام ہے۔

ارے ارے بیٹا، میرا پین ہے، میں لکھ رہی ہوں۔ مگر دادی میرے پین کی انک ختم ہو گئی ہے۔ مجھے ہوم ورک کرنا ہے۔ باپ سے کہو،  انک پاٹ لے آئے۔ بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ اگلے مہینے لائیں گے۔ رہنے دو بیٹا لو میرا پین ہی لے جاﺅ۔ جانے تعلیم پر کتنا خرچ اٹھ جاتا ہے تمہارے بابا کا اور تنخواہ بھی کم ہے۔ دادی آپ کی باتوں میں دیکھیں، لائٹ ہی چلی گئی ہے۔ اچھا سوری بیٹا، آئندہ میں اتنی باتیں نہیں کروں گی کہ بتی ہی گُل ہو جائے۔ او کے، دادی میں بھی جاتا ہوں، امی انتظار میں ہوں گی۔ بابا کے ساتھ ہی سونے نہ چلی جائیں تو بابا ڈانٹتے ہیں انہیں۔ بھاگو بیٹا، بھاگو۔ میرے بیٹے کی واحد انجوائے منٹ میری بہو ہی تو ہے۔ اوپر سے لاﺅڈ سپیکر پر شادی والے پڑسیوں کے گھر میں گانا بھی لگا ہوا ہے۔ میں تندوری مرغی ہوں یار، گٹکا لے سیاں یا ایسا کچھ۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ مرغے کی پھر وہی ایک ٹانگ۔ گھروں کے اندر بھی وہی گلیاں ہیں، ٹوٹی پھوٹی، گندی، بدبو دار، رنج ہی رنج لکھا ہے دیواروں پر۔ یہ گھروں کا گند ہی ہے، جو نکلتا ہے تو گلیوں میں پھیل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).