امریکا کا سفرویتنام سے افغانستان تک اور ذوالفقار علی بھٹو


ذوالفقار علی بھٹو کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ بھٹو غیر معمولی صلاحیت کی حامل شخصیت تھے‘‘ ان کے دور میں زرد صحافت کے ذریعہ ان کی کردار کشی کرنے والے صحافی اور دانشور بھی آج لکھ رہے ہیں کہ بھٹو صاحب کی خارجہ پالیسی پاکستان اور مسلم امہ کے مفادات پر مبنی تھی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام آج بھی ایک خواب ہی رہتا اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان پر کھیل کر اس کا آغاز نہ کرتے۔

بعض لوگ آج بھی بغض بھٹو میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ بھٹو صاحب کی پھانسی میں کسی قسم کا امریکی کردار تھا۔ جبکہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اس امرکا اظہار کچھ اس طرح کرچکے ہیں کہ کہ بھٹو کی پھانسی میں امریکی رول تھا۔ اسلم بیگ کے اپنے الفاظ میں ’’Henry Kissinger had a role in Bhutto146s execution: Aslam Beig‘‘ ۔

ایک اورامریکی آفیشل کے مطابق

’’ Deputy chief of the US mission in Islamabad, Gerald Feuerstein, who was a witness to the meeting between former premier Zulfikar Ali Bhutto and former US secretary of state Henry Kissinger in Lahore in August 1976, admitted that Bhutto rejected the ?warning? to disband Pakistan?s nuclear programme.’’

اس امریکی آفیشل کاکہنا ہے کہ وہ اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ ہینری کسینجر نے 1976 میں پاکستانی وزیر اعظم بھٹو پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ جوہری پروگرام بند کردیں لیکن پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس دباؤ کو مسترد کردیا تھا۔

بھٹو صاحب کے مخالفین ان کے غریبوں کی حمایت کرنے کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ وہ ایک جاگیردار خاندان کا چشم وچراغ تھا اسے غریبوں سے کیونکر ہمدردی ہو سکتی تھی۔ غریبوں کی ہمدردی محض ان کے ووٹ حاصل کرنے کا ڈرامہ تھا۔ ایسا کہنے والے اس حقیقت کو جھٹلادیتے ہیں کہ ذوالفقا ر علی بھٹو جاگیردار باپ کا بیٹا ہونے کے ساتھ ایک عام عورت’’ محترمہ خورشید بیگم‘]کے لخت جگر بھی تھا۔ بھٹو کے دل و دماغ میں غریبوں کے لیے ہمدردی اور درد ان کی والدہ کی تربیت کا اثر تھا۔

امریکا کی ویتنام سے جنگ ہوئی تو واشنگٹن نے پاکستان کی حمایت مانگی بلکہ پاکستان کی ’’ہاں‘‘ کے لیے اپنا پورا زور لگادیا مگر پاکستان کے نہتے ( ایوب اور مشرف کی نسبت) وزیر خارجہ ذوالفقا ر علی بھٹو نے واشنگٹن کو ٹکا سے جواب دیدیا تو امریکا نے کہا کہ ویتنام کے معاملے پر ہمیں پاکستان سے فوجی درکار نہیں صرف سیالکوٹ کی بنی ٹینس بال چاہیے لیکن بھٹو آمادہ نہیں ہوئے تھے اور امریکا کے مقابلے میں ویتنام کی حمایت کا اعلان کیا۔

جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی نائب وزیر خارجہ کی ایک فون کال پر نہ صرف گھٹنے ٹیک دیے بلکہ اپنے برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چڑھائی کے لیے اپنی سرزمین اور ایئر بیس تک استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طاقتور کون تھا؟ وزارت خارجہ کس دور میں آزاد تھی؟

ذوالفقا ر علی بھٹو کے دور میں آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی گئی جس نے تمام ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی بنا ڈالی۔ ذوالفقا ر علی بھٹو کی شخصیت ہی ہمالیہ سے بلندو مضبوط دوستی کے حامل چین اور امریکا کے مابین دوستی کا وسیلہ و ذریعہ بنے۔ آج پاکستان چین سے جس دوستی کے دعوے کیے جاتے ہیں اس دوستی کے معمار بھٹو صاحب ہیں۔ چیئرمین ماوزے تنگ اور چیون لائی بھٹو کی شخصیت اور نظریات کے گروید تھے۔

ویتنام سے امریکا کی جنگ چھڑی تو امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی مدد چاہی بلکہ اس کے لیے اس نے اپنا تمام تر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تو پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا کی تمام ترغیبات، لالچ اور دباؤ کو جوتی کی نوک پر رکھا اور امریکا کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا۔ جس پر امریکا نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی فوج کی ضرورت نہیں۔ پاکستان صرف سیالکوٹ کی بنی ایک ٹینس بال ہماری حمایت میں دیدے لیکن جنرل ضیاء الحق اور جنر ل پرویز مشرف کی نسبت نہتے مگر پاکستان کی محبت کے نشے سے سرشاروزیر خارجہ بھٹو نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ بھٹو کی پھانسی دلوانے میں امریکا نے بھٹو صاحب کے اس جرم کو بھی یاد رکھا۔ ذوالفقا ر علی بھٹو اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ سفید ہاتھی ‘‘ کا حافظہ بہت تیز ہے۔

ذوالفقا ر علی بھٹو 1956سے پاکستان کی خدمت میں جت گئے تھے۔ پہلی بار انہیں ایک سرکاری وفد کا رکن بناکر اقوام متحدہ بھیجا گیا اس کے بعد تو انہیں ان کی ذہانت و متانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لگاتار بیرونی دوروں پر روانہ کیا گیا۔ پھر جب ایون خان نے سول حکومت کا تختہ الٹا تو سکندر مرزاجو ذوالفقا ر علی بھٹو کی خدادصلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ تھے اس کیسفارش پر ایوب کان نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا اور ابتدائی طور پر معدنیات و قدرتی وسائل کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔ پھر توانائی کی وزارت انہیں دی گئی اور پھر انہیں وزارت خارجہ سونپ دی گئی جس نے ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو کھل کر اجاگر کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے دشمن کو للکارا اور کہا’’بھارتی کتوں نکل جاؤ کشمیر سے‘‘ اور بھارت سے سوسال جنگ لڑنے کا نعرہ لگایا۔ بحٹو صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے ایسی فی البدیہ تقریر کی کہ اقوام عالم بھارت پر تھو تھو کرنے لگے اور پاکستان کے موقف کی تائید کرنے پر مجبور ہوگئے۔

ذوا ا؛فقا رع لی بھٹو کی اس تقریر نے عوام کو ان کا دیوانہ بنا دیا۔ اسی تقریر کے باعث لوگ کہنے لگے کہ’’اے منڈا بھارت نال دو دو ہتھ کرے گا‘‘ اور اسی تقریر نے پاکستانی عوام کے دل موہ لیے اور 1970 کے انتخابات میں انہیں کامیابی سے ہمکنارکیا۔ بھٹو صاحب نے عوام کو شعور عطاکیا، بھٹو نے غریب عوام کو عزت سے جینے کا سلیقہ سیکھا انہیں جاگیرداروں، ڈیروں، چودہریوں اور نمبرداروں کی غلامی سے نجات دلائی۔

ذوالفقا ر علی بھٹو کو ’[جب تک سورج چاند رہے گا بھتو تیرا نام رہے گا‘‘ کے مقام پر پہنچانے میں غریبوں، کسانوں، ہاریوں اور کارخانوں کے مزدوروں نے اپنی جان کی بازی لگادی، اپنی پیٹھوں پر کوڑے کھائے، پھانسی کے پھندے اپنے گلے میں چوم کر ڈالے۔ حالانکہ ان کے دشمن آمر ضیا ء نے غریبوں کو ان سے متنفر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ہر حربہ آزمایا لیکن ناکامی آمر کا مقدر ٹھہری۔ بھٹو کانام مٹانے کی کوشش کرنے والے خود مٹ گئے لیکن بھٹو آج بھی زندہ ہے، زندہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).