بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد : قومی بحران کا نسخہ


نادیدہ قوتوں کو وطن عزیز میں سیاست سے اس قدر دلچسپی ہے کہ میدان سیاست میں ہمہ وقت ایک سے ایک نیا طوفان کھڑا کرنے کے فن میں یکتا ہو چکی ہیں۔ منتخب سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنا اور انہیں پچھاڑنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ دارالحکومت میں پے در پے دھرنے دلوانے کے بعد بھی جب موجودہ حکومت کو گرایا نہ جا سکا تو بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سے نوابوں اور سرداروں کو ورغلا کر وزیر اعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اہتمام کر لیا گیا۔ جس تعداد میں روز بروز استعفے بلوچستان کابینہ کے ارکان کی جانب سے پیش کئے رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ اس سارے کھیل کی پشت پر کون موجود ہے۔ بلوچستان میں اچانک اٹھنے والا یہ بحران مصنوعی ہے اور انہی قوتوں کا پیدا کردہ ہے جو ہر ممکن طریقے سے منتخب حکومت کو گرا کر اپنے مہروں کو اقتدار کی شطرنج بادشاہ بنانا چاہتی ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون کی حکومت کو ختم کرنے کہ کوششوں میں ایک جانب فرشتوں نے عمران خان، طاہر القادری اور آصف زرداری پر مبنی ایک ٹرائیکا تشکیل دے دیا ہے جو جلد ہی سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دے گا۔ دوسری جانب بلوچستان میں جس طریقے سے مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی کو “ورغلایا ” جا رہا ہے اور ان کے سوئے ہوئے “ضمیر” جگائے جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر مشہور زمانہ مصرعہ یاد آ جاتا ہے کہ “تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو”۔ نجانے منتخب حکومتوں کو کمزور کرنے اور گرانے سے وطن عزیز کے “فرشتوں” کو کیا تسکین ملتی ہے؟ اور بار بار یہ کھیل کھیلنے سے آخر وطن عزیز کی کونسی ایسی خدمت ہو جاتی ہے جسے ہمارے جیسے کم فہم حضرات سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ خیر بلوچستان میں نواب ثنااللہ زہری اپنی حکومت بچا پاتے ہیں کہ نہیں، اس کا دارومدار جے یو آئی ایف پر ہو گا۔ یعنی مولانا فضل الرحمان کے پاس اس وقت ترپ کا پتہ ہے۔ اب مولانا اپنا پتہ فرشتوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی کی تحلیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں یا پھر محض ثنا اللہ زہری کی تبدیلی پر اکتفا کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کو اس بحران سے نکالنے میں کردار ادا کرتے ہیں اس کا فیصلہ مولانا دونوں فریقین میں سے سب سے اچھی اور پرکشش ڈیل دینے والے کے حق میں ہی کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان ایک کایاں اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مولانا صاحب ہوا کا رخ دیکھ کر اور پہچان کر ہی کسی فریق کی جانب جھکاؤ کرتے ہیں۔

بلوچستان میں ایک ایسے وقت میں وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کا پیش کیا جانا جب سینیٹ کے انتخابات میں تین ماہ سے بھی کم مدت کا عرصہ بچا ہے واضح طور پر سینیٹ کے انتخابات کو کھٹائی میں ڈالتا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی فرشتے بضد ہیں کہ سیاسی انجینئرنگ کرتے ہوئےمسلم لیگ نون کو سینیٹ میں اکثریت لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ ایک لمحے کو فرض کرتے ہیں کہ فرشتے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔اس صورت میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سینیٹ انتخابات موخر ہو جائیں گے اور ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے فرشتوں کی توقعات کے عین مطابق دوسری جانب زرداری، قادری اور عمران بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور یوں آئینی بحران اور احتجاجی تحریک کا خاتمہ حکومت کے خاتمے اور قبل ازوقت انتخابات کی صورت میں ہو جائے۔ لیکن کیا اس کے بعد مسلم لیگ نون ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ایسٹیبلیشمنٹ کے مہروں کو اگلی حکومت چلانے دے گی؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اپوزیشن کی سیاست نواز شریف سے بہتر اس وقت ملک میں کوئی نہیں کر سکتا اور یقینا دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ پھر نواز شریف کی جانب سے بھی شروع ہو گا جو اگلی متوقع کٹھ پتلی حکومت کو مفلوج کر سکتا ہے۔ شاید فرشتوں کو یہی مطلوب پے کہ یہ تماشہ جاری ساری رہے اور وہ سب کا قد چھوٹا دکھا کر خود طویل القامت دکھائی دیں۔

دوسری جانب ایک صورت حال یوں بھی ہو سکتی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں نواب ثنا اللہ زہری کی قربانی دے کر صوبائی اسمبلی کی تحلیل کو بچا لیا جائے۔ اس صورت میں سینیٹ انتخابات کو درپیش خطروں میں سے ایک خطرہ کم ہو جائے گا۔ بلوچستان چونکہ گوادر کی بندرگاہ کے باعث بین الاقوامی طور پر اہمیت کا حامل ہے اس لئیے اگر فرشتوں کی خیال اور خواہشات کے برعکس مسلم لیگ نون اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی نے اگر احتجاج یا جلسوں جلوسوں کا راستہ اپنایا تو چین کو اس حوالے سے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کے تناظر میں بھی احتجاج خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے ہی امریکہ پاکستان کی دفاعی امداد بند کرتے ہوئے مختلف پابندیاں لاگو کرنے کا فیصلہ کر رہا ہے، ہمارے “احباب” کو امریکہ دوارے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومت کو گرانے کی فکر لاحق ہے۔ فرشتے چونکہ بین الاقوامی پابندیوں کے ڈر کے باعث جمہوریت کی بساط لپیٹ کر سامنے سے آ کر حکمرانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئیے شاید “کنٹرولڈ جمہوریت” کے ذریعے اپنی کٹھ پتلیاں اقتدار میں بٹھا کر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی پرانی عادت پورا کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچستان میں نامعلوم نمبروں سے کال کر کے سیاسی جماعتوں کے اراکین کو مختلف طریقوں سے ڈرا کر یا ورغلا کر وفاداریاں تبدیل کروانے والے فرشتے نہ جانے کب اس حقیقت کو سمجھیں گے وہ بذات خود وطن عزیز کے بے شمار مسائل کی جڑ ہیں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ تو گزشتہ ستر برسوں سے فرشتے وطن عزیز میں کرتے ہی آئے ہیں لیکن اس اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں وطن عزیز کے سیاسی و نظریاتی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ بنگالیوں نے فرشتوں کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک آج بھی جاری ہے۔ اور اب پنجاب سے بھی صدائےاحتجاج بلند ہو چکی ہے۔ ان حالات میں فرشتوں کی چھری اپنوں کی ہی گردن پر چلتی رہی تو شاید ان کی انا کی تسکین تو اس سے ہو جائے لیکن وطن عزیز پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ناپسندیدہ شخصیات کو غدار یا کرپٹ قرار دے کر ان کی سیاست یا نظریات کو ختم کر دینا اتنا ہی آسان کام ہوتا تو آج بھٹو کی پیپلز پارٹی، ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا وجود نہ ہوتا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ نون بھی ایک سیاسی حقیقت ہے اور تمام تر کاوشوں کے باوجود نواز شریف کی عوامی مقبولیت پنجاب میں کسی بھی طور کم نہیں ہونے پائی۔ البتہ اس کے برعکس سیاسی انجینئرنگ اور اس کے پسپشت موجود قوتیں بے نقاب ہو کر سامنے آ گئیں۔

اگر سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے حکومتوں کے سیاسی قتل کی اس ریت کو ختم نہ کیا گیا تو ہم شاید آنے والی کئی دہائیوں میں بھی اسی طرح گول دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ اور دائروں میں بڑھنے کا عمل کبھی بھی مسافت کے کٹنے یا رستوں کی طوالت کم ہونے کا باعث نہیں ہوا کرتا۔ بقول امجد اسلام امجد “دائروں میں چلنے سے دائرے تو بڑھتے ہیں۔ فاصلے نہیں گھٹتے”۔ گزشتہ ستر برسوں سے ایک ہی دائرے میں مقید رہنے کا نتیجہ کمزور جمہوری و سرکاری اداروں اور ایک بے ہنگم سے ہجوم نما معاشرے کی صورت میں ہم نے بھگتا ہے۔ اب فرشتوں کو رحم کرتے ہوئے بلوچستان کی اسمبلی کے ذریعے نظام میں نقب لگانے سےگریز کرنا چائیے۔ وگرنہ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل جمہوریت کے ساتھ معاشرے کو بھی گھن کی طرح کھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).