عہد جدید اور پاکستانی ڈرامہ


شادی، بیاہ، رسمیں اور گھریلو ناچاقیاں۔ پاکستانی ڈراموں کا گزشتہ سال بھی ”غم داستاں“ کی طرح بیت گیا۔ اس وقت پاکستان کے کوئی لگ بھگ 10چینلز ڈرامہ کی نشریات سر انجام دے رہے ہیں، مگر جدت اور نئے خیال کو بھرپور پزیرائی پھر بھی نہیں مل سکی ہے۔

ایک چینل سے دوسرے چینل تک، ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا محور صرف شادی کرنا اور شادی کی صعوبتیں جھیلنا ہی ہے۔ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد کردار بھی درد و کرب میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ ڈرامہ انڈسٹری نے انسان سے منسلک زندگی کے دیگر شعبوں کو پس پشت ڈال
دیا ہے۔ اس ضمن میں جو قدرِ مشترک پہلو ہے، وہ ایک جیسے سیٹ، مناظر اور حالات کی بار بار تکرار یا Repetition ہے۔

اگرچہ ناظرین کو گزشتہ سال سے جاری ”باغی“ اور ”او رنگریزہ“ جیسے منفرد ڈرامے بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ جن کے کردار وں کی کہانی مختلف اور مضبوط ہے۔

اس حوالے سے ایک قابل ذکر ڈرامہ ”آدھی گواہی“ دور جدید کے ایک سنگین مسئلہ سے شروع ہو کر اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ خواتین میں شعور اجاگر کرنے کی یہ ایک بہترین کاوش تھی۔

بہر حال مقصود یہاں ڈراموں کی درجہ بندی کرنا نہیں ہے، بلکہ توجہ طلب امر تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار کر سامنے لانا ہے۔ آپ نے کم و بیش ہی ایسے ڈرامے دیکھے ہوں گے جن میں مفید کتب یا معلوماتی سروے اور حقائق کا ذکر کیا گیا ہو۔ قریباً ہر شخص ایسا انسان دکھایا جا رہا ہے جو صبح کی چائے سے لے کر رات کے کھانے تک خاندانی سیاست کا تو شکار ہے، مگر مقصد حیات سے غافل ہے اور غفلت میں ہی رہتا ہے۔ حتی کہ اکثر اوقات سات سے آٹھ ماہ کی طوالت کے بعد بھی ڈرامہ ”منصفانہ انجام ” تک نہیں پہنچ پاتا اور آخری قسط میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔

ہمارے میڈیا میں شروع سے لے کر اب تک خواتین کو مظلوم، بے بس اور انتہائی نازک ” حسینہ“ دکھایا جاتا ہے، جنہیں کسی بھی روپ میں ہم خودمختار یا قابل نہیں دیکھتے، اگرچہ انڈین اور ترکی ڈرامے بھی خواتین کو ایک مخصوص پروپیگنڈا کے طور پر پیش کرتے ہیں، ڈراموں کی خواتین کرداروں نے حقیقی عورت کو بھی مغلوب کر رکھا ہے، مگر خواتین کے مسائل میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دور میں خواتین کو ہراساں کیئے جانا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ عجب حال ہے کہ ہم خواتین کو عزت و مقام پھر بھی نہ دلا سکے ہیں، تو کیوں نہ اب انداز بدل کر دیکھیں! جہاں دنیا پہلے سے ہی مسائل کا شکار ہے، وہاں انھیں حل دینا بھی درکار ہونا چاہیے۔

ڈراموں میں جس کردار کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے، اسے پاگل کر کے یا مار کر کے کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقی زندگی میں ہمیں ایسے افراد سے بذات خود نبر د آزما ہونا پڑتا ہے جنہیں ہم اپنی زندگی سے مٹا نہیں سکتے۔ فلسفہ اور منطق سے بالاتر ہو کر محض انٹرٹینمنٹ کی بنیاد پر ہم کبھی مثبت اور پختہ کردار کے مالک نہیں بن سکتے۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کی زبوں حالی کا تو تذکرہ ہو اور ترقی کے ثمرات بھلا دیے جائیں؟

جہاں آغاز کا روایتی ادب قابل تعریف رہا ہے۔ دوسری طرف شیکسپئیر اور اشفاق احمد کا تھیم آج بھی سراہا جاتا ہے۔ مگر آج مقابلہ اتنا زیادہ ہے کہ نئے طرز فکر اختیارکرنا بھی بے حد ضروری ہے۔
لہذا یہ بھی ایک جہت ہے کہ زماں و مکاں کو سمجھا جائے۔ کائنات میں پنہاں بے شمار اسرا ر و رموز، روحانیت کے اثرات سے لے کر سائنسی اور منطقی جہان کا ایک وسیع سمندر موجود ہے۔ جنہیں ڈراموں میں نظر آنے والے ان جیتے جاگتے کرداروں میں ڈھال کر اس عہد کی تجدید نو ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).