بیٹی کی تصویر اور ایک سوال


یار یہ تصویر تو دیکھو۔ لگتا ہے میری بیٹی کی ہے۔ وہی قد بت، اسی طرح کے ریشمی بال۔ گلابی رنگت کا لباس۔ مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی ہی ہے۔ کیونکہ اسے گلابی رنگ پہننے میں پسند ہے۔ لباس ہوں یا جوتے۔ وہ گلابی رنگ کی طرف دوڑتی ہے۔ اچھا یہ دیکھو۔ یہ دوسری تصویر ہے۔ سامنے سے چہرہ کی۔ وہ پہلے والی میں تو دکھ نہیں رہا تھا نا۔ بس کوئی ہاتھ سے پکڑے لے جا رہا تھا۔ اس کا چہرہ بھی دِکھ نہیں رہا۔ اس میں دیکھو۔ مسکراتے ہوئے۔ دیکھا؟ کیا دیکھا؟ میں یہ کہہ رہا تھا اس میں بھی گلابی رنگ ہے۔ گلابی جیکیٹ۔ یہ میری بیٹی ہی بھائی۔ پکا۔ کیونکہ وہ ماں سے فرمایش بھی کرتی رہتی ہے کہ اسے گلابی رنگ والے کپڑے پہننے ہیں۔ گلابی کپڑے پہننے ہیں۔ دیکھ لی؟ اچھی طرح؟

اچھا ٹھیک ہے لیکن یار ایک بات بتاؤ۔ یہ جو بیٹی کی تصویر ہے۔ ہاں یہی گلابی لباس والی۔ یار یہ میرے اندر کیل کی طرح ٹھک گئی ہے۔ گھستی ہی جا رہی ہے، گھستی ہی جا رہی ہے۔ بہت درد ہو رہا ہے یار۔ بہت۔ دیکھتا ہوں تو مانو کلیجہ تار تار ہو جاتا ہے۔ ویسے یار یہ کلیجہ تار تار کیسے ہوتا ہے؟ سنتے ہیں کلیجہ تار تار، کلیجہ تار تار۔ ہم بھی ویسے بھی کہہ دیتے ہیں۔ لیکن پتا ہے تار تار کیسے ہوتا ہے؟ ایسے جیسے کلیجے کو کوئی خار دار زمین پر گھسیٹے۔ پھر وہ تارو تار ہوجاتا ہے۔ کسی دھجی کی طرح۔ لیروں لیر۔ تو یار کیا بتاؤں مجھے بھی یہ آج پتا چلا ہے۔ لیکن یار بہت درد ہے بھائی بہت۔ یار یہ تار تار ہوجائے تو معاملہ ختم ہو۔ یہ تو ختم ہی نہیں ہوتا۔ کیا کروں؟ کچھ تو بتاؤ پلیز۔ خدا کا واسطہ ہے۔ کچھ تو مدد کردو۔ تمہیں تمہاری بیٹی کا واسطہ ہے۔ تم تو کچھ بھی نہیں بتاتے۔ بھلا ایک بات بتاؤ؟ آخری۔ بتاؤگے؟ یار تم سے اس لئے پوچھے جا رہا ہوں کہ تم سمجھدار لگتے ہو۔ تمیں پتہ ہوگا۔ میں تو ٹھہرا نرا جاہل۔ یار سمجھ یہ نہیں آتا بیٹی کی تصویر دیکھ کر تو خوش ہو جانا چاہیے۔ نہیں؟ ہیں نا؟ لیکن ہمارے پاس بیٹی کی تصویر دیکھ کر ہمیشہ رونا کیوں آجاتا ہے؟ بتادو پلیز۔ کچھ تو بولو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).