زینب بیٹی، اچھا ہوا تم مر گئیں!


پیاری بیٹی زینب،
اچھا ہُوا تُم مر گئیں!

زندہ رہتیں تو خُدا جانے تمہار کیا حال ہوتا۔ کِن کِن مصائب سے گُزرنا پڑتا۔ تھوڑی بڑی ہوتیں تو قریبی رشتہ داروں کی نگاہیں تمہاری چھاتی کے اُبھاروں کو تاڑتیں، تمہارے اپنے ہی تمہیں کھیل ہی کھیل میں ہاتھ لگانے کو للچاتے اور تُم سمجھتیں کہ یہ باپ جیسے لوگوں کی شفقت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ شُکر کرو کہ تُم بچ گئیں کہ تُم سے ایسے کھیل نہیں کھیلے گئے۔ کوئی پتہ نہیں کہ تم کِسی چچا، ماموں، خالو، پھوپھا یا اُنہی کی قبیل کے دیگر مردوں کو بھی اپنے والد جیسا سمجھ لیتیں اور اُن سے مانوس ہو جاتیں کہ اُن کے ساتھ سونے پر اصرار کرتیں اور وہ تمہارے ساتھ لاڈ ہی لاڈ میں اپنی شہوت کو سکون پہنچاتے رہتے، شُکر کرو کہ تُم ایسا کھیل نہیں کھیل پائیں اور مر گئیں۔

تمہیں کیا پتہ کہ خُدا نے تمہیں کون کون سی مشکلات سے آزاد کیا ہے؟ اگر تھوڑی اور بڑی ہوتیں تو تمہیں سکول، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم کے مختلف مراحل کے دوران کیا کیا نہ مسائل اُٹھانے پڑتے؟ ابھی تو تمہاری چادر اوڑھنے کی عُمر نہیں آئی تھی، ورنہ تمہارے اپنے ہی گلی کے اُس کونے میں تمہارا انتظار کرتے جہاں کوئی اور نہ ہوتا اور چادر ٹھیک کرنے کے بہانے تمہارے جسم کی تراش اور ملائمیت کو چھُو کر اپنی ہوس کی پیاس بُجھاتے۔

پیارے سے گود میں بٹھانے والے تمام انکلوں اور کزنوں سے بچ گئیں، جو گُڈے گُڈی کے کھیل میں کھلواڑ کر رہے ہوتے ہیں اُن سے بچ گئیں۔

آتے جاتے سفر کے دوران، کنڈکٹر صاحبان، فرنٹ سیٹ پر ڈرائیورز، ساتھی مرد مسافروں کے “بے ضرر” لطائف سے بچ گئیں، تم پر سیٹیاں تو نہیں ماری گئیں ناں؟ کیا تُم پر آوازیں کسیں گئیں؟

چلو یہاں تک ہو سکتا ہے کہ تُم بچ ہی جاتیں لیکن یہ تو شروعات ہے، کیا ہوتا تمہارا اگر تمہیں “ونی” کا شکار ہونا پڑتا؟ کیا ہوتا اگر تمہار نکاح قُران سے کروا دیا جاتا؟ کیا ہوتا اگر پنچائتی فیصلے کے نتیجے میں تمہیں کسی اور کے گناہوں کی سزا کے طور پر ایک اور مختاراں مائی بننا پڑتا؟ کیا پتہ کون کب کِس وجہ سے تمہارے اُوپر تیزاب پھینک جاتا؟ شُکر کرو خُدا کا کہ تُم ان سب جھنجھٹوں سے آزاد ہو گئیں۔

مان لو تم ڈاکٹر بن جاتیں، تو ساتھی ڈاکٹرز معلوم ہے کیا کرتے ہیں؟ تمہاری رات کی ڈیوٹی کے دوران کون کون سے دعوت نامے ملتے؟ خُدانخواستہ سُوئی پوسٹنگ ہو جاتی تو کیا معلوم کوئی کیپٹین حماد سا ٹکر جاتا اور تمہیں اپنی گواہی کے لیے کوئی نہ ملتا اور یہ سُننا پڑتا کہ یہ سب تُم نے غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے لیے کیا ہے؟

دیکھو، کیا تمہیں ننگا کر کے بازاروں میں گُھمایا گیا ہے؟ نہیں ناں؟ تو؟ شُکر کرو!

چلو، مان لیتے ہیں کہ تم بہت ہی خوش قسمت نکلتیں؛ رشتہ دیکھنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا، اُن کی نگاہیں تمہیں اُن زاویوں سے بھی دیکھ رہی ہوتیں جن کا وجود بھی نہیں ہے، چائے لانے سے برتن اُٹھانے تک تمہارے دوپٹے کے پلووں کے سرکنے کا انتظار کرتے، شفقت سے سر پر پھیرا گیا ہاتھ کمر تک جاتا تو تمہیں احساس ہوتا کہ اتنی کم عُمری میں مر کر کِتنا اچھا کیا تُم نے۔

بیٹی، خؐوش قسمتیوں کی یہ داستان بہت طویل ہو جائے گی، بات آسیہ بی بی تک بھی پہنچ سکتی تھی، تم ملالہ کی طرح غدار بھی نکل سکتی تھیں۔

خُدا کو میرا سلام دینا جو اس قدر رحیم نکلا کہ تمہیں ان تمام عذابوں سے بچا کر اپنے پاس لے گیا، اس کی حکمتیں وہی جانے، اُس کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے، ان سب مصلحتوں کی ایک چھوٹی سے فہرست تمہیں اُوپر گنوا تو دِی ہے۔

اچھا ہوا تم مر گئیں، ورنہ چار گواہ کہاں سے لاتیں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).