زینب، جرم و سزا اور ہم سب


`

معصوم زینب اور اس جیسی کتنی بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی اور قتل کے واقعات پر پورے معاشرے کا ضمیر لرز اٹھتا ہے، رنج، غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے، تیز ترین ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ان واقعات کی خبر چشم زدن میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور لوگ اپنی سمجھ اور شعور کے مطابق ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ عموما حکومت وقت عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بنتی ہے، اپوزیشن پارٹیاں اور موقع پرست میڈیا ان واقعات سے ساکھ اور ریٹنگ حاصل کرتے ہیں۔

ان واقعات کے تدارک پر بات کرنے سے پہلے ہمیں ان جیسے حالات و واقعات کو ایک بڑی تصویر کے فریم میں دیکھنا ضروری ہے، تاکہ اس طرح کے واقعات کا مستقبل میں موثر طور پر تدارک کیا جاسکے۔

عدل و انصاف کا نظام ایک مستقل اور مسلسل عمل ہے جس کا تعلق ریاست کے آئین سے وابستہ ہوتا ہے، حکومت ریاست کا ایک حصہ ہے جس میں منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کا کردار محدود مدت اور پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار مستقل نوعیت کا ہوتا ہے۔ جو جرم آج ہوا ہے اس میں موجودہ حکومت اور انتظامیہ کی کوتاہی تو ظاہر ہے کہ نظر انداز نہیں کی جا سکتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نظام کی کمزوری اور فرائض منصبی میں غفلت و کوتاہی پرانے نظام کا ہی تسلسل ہے۔

 یہ سب حکومت یعنی گورنینس کے ایک پیچیدہ اور گنجلک نظام سے وابستہ ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو ہمیں برٹش طرز حکومت، قانونی نظام اور اسٹبلشمنٹ ورثے میں ملی۔ ملک کی پیدائش کے بعد کے بیس سال نہایت اہمیت کے حامل تھے مگر بدقسمتی سے ان سالوں میں ملک میں جاگیرداروں، مولویوں، بیوروکریٹس، سرمایہ داروں اور فوجی جنرلوں کی ایک طاقطور الیٹ کلاس ملک کی سیاہ و سفید کی مالک بن گئی اور عوام کی زندگی بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، الیٹ کلاس نے پولیس کو کنٹرول کیا اور اس سے اپنی طاقت کو اور بڑھاوا دیا۔ طاقت نے کرپشن کو بڑھاوا دیا، قانون کی گرفت طاقطور پہ کمزور اور کمزوروں پر سخت ہوتی چلی گئی۔

سب سے بڑا دھچکہ ملک کی انتظامیہ یعنی بیوروکریسی کو لگا، میرٹ کے بجائے سسٹم میں نا اہل اور سفارشی لوگ آتے چلے گئے اور اس بدبودار نظام کو اور گندہ کرتے چلے گئے، ملک بجائے نارمل جمہوری نظام کے، مارشل لا کی اسٹیرائڈز کا عادی بنادیا گیا، اصلاحات کا عمل اول تو ہوا ہی نہیں اور اگر کسی منتخب حکمران نے کچھ اصلاحات (مثلا ذوالفقار بھٹو کی زرعی اصلاحات اور صنعتی و تعلیمی اداروں کا قومیانا) کرنے کی نیم دلانا کوشش کی بھی توالیٹ پاور اسٹرکچر نے اسے ناکام بنا دیا۔ ریاست و حکومت کی طاقت بتدریج جاگیرداروں اور مذھبی طبقے کے ہاتھوں میں آتی چلی گئی جو روایتی طور پر ہر فوجی حکومت کے حامی اور حصہ دار بن جاتے ہیں۔ اس طرح دھیرے دھیرے قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا بن گیا جسے طاقتور تو پھاڑ کر نکل جاتا ہے مگر کمزور پھنس جاتا ہے۔ انصاف اسی کو ملنے لگا جس کے پاس یا تو پیسہ تھا یا الیٹ کلاس سے تعلقات، غریب اس استحصالی نظام کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ سول سوسائٹی صحیح طرح ابھرنے سے پہلے ہی متنازع این جی اوز کے سائے میں چلی گئی جن کے بارے میں معاشرے میں عام تاثر پھیلا دیا گیا کہ یہ غیر ملکی دشمنوں کے ایجنٹ ہیں اور ابھرنے والا آزاد میڈیا بھی مخصوص عزائم کے حامل قوتوں کے کنٹرول میں آگیا۔

اب ایک ایسا وقت آگیا ہے جب حکومت، ریاست، سول سوسائٹی، بیوکریسی، خفیہ ادارے، عدلیہ اور میڈیا طاقت کے حصول کی چھینا جھپٹی کے ایک پیچیدہ عمل میں مدغم ہوگئے ہیں، بظاہر حکومت میں بیٹھی پارٹی اپوزیشن لگتی ہے اور اپوزیشن میں موجود قوتیں جن کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے، حکومت کی طرح برتاؤ کرتے نظر آتے ہیں۔

گورننس کی اس بڑی تصویر میں زینب، کائنات بتول اور اس جیسے سینکڑوں ہزاروں بچوں اور بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعات کو دیکھا جائے تو ایک جانب تو اس کی ذمہ دار کمزور گورنینس، کمزور قانون اور عدل کا نظام اور دوسری جانب ایک مجرمانہ بیمار ذہنیت ہے جو اسی معاشرے میں پروان چڑھتی ہے اور اس ذہنیت کی پرورش میں معاشرے میں مروج اخلاقیات، رویے، تمدن اور رجحانات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مذہبی اخلاقیات اور قانون کا خوف جرم سے روکتے ہیں جبکہ جنسی گھٹن، ذہنی پراگندگی، بیمار نفسیات، بازار میں موجود جنسی مواد اور سماجی نظام میں موجود کمزوریاں مجرم اذہان کو ان بھیانک اخلاقی جرائم کی جانب مائل کرتی ہے۔ عوام اس سارے عمل میں غصے اور رنج میں کڑھ رہے ہیں اور ان کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کس پر غصہ نکالیں۔

اب سوال ہے کہ کیا کیا جائے، میرے خیال میں اس کے لئے ہمیں فوری یعنی قلیل مدتی اور دور رس یعنی طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ قلیل مدتی اقدامات میں سول سوسائٹی اور میڈیا حکومت اور انتظامیہ پر دباؤ بنائے رکھے تاکہ اس قسم کے واقعات میں ملوث درندوں کو فوری طور پر عبرتناک سزائیں دی جایئں۔

دوسری جانب طویل مدتی اقدامات میں ایک قومی کمیشن بناکر پہلے تو ان واقعات کے عوامل پر تحقیق کی جائے اور اس کی سفارشات کو فوری قبول کرتے ہوئے پولیس، عدلیہ، تعلیمی اداروں بشمول مدارس، لوکل باڈی سسٹم میں فوری اصلاحی عمل شروع کیا جائے، میڈیا کے ذریعے والدین اور بچوں کو ان واقعات سے بچنے کی آگاہی دی جائے، جنسی و نفسیاتی مریضوں سے نمٹنے کے لئے سنجیدگی سے تجاویز دی جائیں، معاشرے سے گھٹن کا خاتمہ کیا جائے (اس مقصد کے لئے بڑی برائی سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی کو متعارف کرانے کی حکمت عملی بنائی جائے)، کمیونٹی پولیسنگ کا نظام لایا جائے، محلہ کمیٹیوں کو ایکٹو کیا جائے، قومی سظح پر نوجوان سوشل ورک رضاکاروں کو منظم کیا جائے اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے تمام افراد کو موبیلائز کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).