بچوں کے خلاف جرائم کا ناسور ایک معاشرتی حقیقت ہے


قصور کی زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے ایک بار پورے ملک کو مشتعل کردیا ہے۔ قصور میں لوگوں نے مظاہرے کیے جلوس نکالے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ ایسے ہی ایک مشتعل جلوس پرضلعی منتظم اعلیٰ کے دفتر گھسنے پر پولیس نے براہ راست فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو لوگ مرگئے اور کئی ایک زخمی ہیں۔ شہر شہر میں زینب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے مظاہرے ہورے ہیں ، لوگ سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اپنے اپنے انداز میں اس واقعے کے خلاف اپنےجذبات اور احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کوئی زینب کو کربلا سے ملا کر دہائی دے رہا ہے تو کوئی بھلے شاہ کی دھی کے رل جانے سے تعبیر کرکے ہاتھ مل رہا ہے۔

جب سے پورا ملک زینب کے ساتھ ہونے والے واقعے میں خون کے آنسو رو رہا ہے اس دوران اب تک ہزاروں اور بچے ایسی زیادتی کا شکار ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں جو شاید جسمانی طور پر زندہ بھی ہوں مگر ان کی روح، معصومیت اور احساس ماردیا گیا ہے جو کسی قانون کے تحت قابل تعزیر نہیں۔ ان میں سے شاید کچھ رپورٹ بھی ہوگئے ہوں مگر زیادہ تر ایسے واقعات اس لئے چھپائے جاتے ہیں کہ ان کے طشت از بام کرنے سے ما سوائے بدنامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2015ء میں 3768 بچوں کے جنسی تشدد کے شکار ہونے کے واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوئے جو در حقیقت ایسے واقعات کا صرف 5 فیصد ہیں جس کا مطلب ہے کہ تین لاکھ اٹھاون ہزار بچے ایک سال میں متاثر ہوئے ہیں بہ الفاظ دیگر روزانہ تقریباً ایک ہزار بچے ایسی درندگی کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر ہم رپورٹ کردہ 3768 کے اعداد کو ہی لے لیں تو روزانہ دس بچے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں جو از خود ایک ملحہ فکریہ ہے۔

ایسا جرم کرنے والوں کی تعداد جرم کے شکار ہونے والوں سے بھی زیادہ ہے جو سال 2015 ء میں 5483 رپورٹ ہوئے۔ اگر ہم ان رپورٹ کردہ واقعات کو صرف پانچ فیصد والی کسوٹی پر رکھیں تو یہ تعداد ایک سال کے دوران پانچ لاکھ بیس ہزار آٹھ سو پچاسی بنتی ہے جس کا مطلب ہے کہ روزانہ 1427 لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں قربت داروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو 66 فیصد بنتے ہیں اس کے بعد 28 فیصد لوگ اجنبی تھے جبکہ قریبی رشتے دار، اساتذہ اور ہمسائے بھی شریک جرم رہے۔ دوسروں کے گھروں کے علاوہ اپنے گھر، سکول، مسجد اور مدرسہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ ہر صوبے، ہر شہر اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے شامل ہیں۔ اس میں لڑکے اور لڑکیاں کے ساتھ اغوا، بدفعلی، اجتماعی بد فعلی اور بد فعلی کی کوشش سمیت تمام جرائم شامل ہیں۔

جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ایک پرانی ریت ہے۔ ہندوستان میں حملہ آوروں کے خوف سے اپنی عورتوں اور بچوں کو خود قتل کرنے کے ساتھ دشمن کے بچوں اور عورتوں کو نیزوں پر اچھالنا اور بازار میں فروخت کرنا ایک منافع بخش کاروبار رہا ہے۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے خاندان غلامان کے سلطان قطب الدین ایبک، غیاث الدین بلبن اور شمس الدین التمش سب ایسے ہی غلام تھے جو سر بازار بیچے گئے تھے۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم میں سب سے زیادہ متاثر بھی عورتیں اور بچے ہوئے جو جنسی درندگی اور تشدد کا نشانہ بنے۔ سرحد کے دونوں اطراف میں تشدد کے ایسے واقعات آج تک بیان کیے جاتے ہیں اور ان کا الزام ایک دوسرے پر لگایا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے جرائم بھی دونوں طرف ہوئے ہیں اور متاثر بھی دونوں طرف کے لوگ۔ بنگلہ دیش میں ایسے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں جنسی زیادتی اور تشدد کے بے شمار واقعات سیکیورٹی فورسز اور البدر سے منسوب کیے جاتے ہیں۔

گو کہ رپورٹ نہیں ہوتے مگرملک بھر میں ایسے واقعات ہر سطح پرہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی جرگہ کسی کمسن یا بالغ پر جنسی زیادتی کو برحق قرار دیتا ہے تو کہیں کسی کوئی بچی کسی بوڑھے کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے۔ گھریلو کام کاج کرنے والے بچوں پر ایسی زیادتیاں اس وقت منظر عام پر آتی ہیں جب ایسے بچے یا ان کے والدین پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں مگر زیادہ تر واقعات میں غریب والدین اس کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھتے ہیں یا با اثر شرفاء سے زیادتی کی قیمت پیسوں کی شکل میں وصول کرکے خاموش رہتے ہیں۔ گھریلو کام کرنے والے نو عمر بچوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتیوں کے بارے میں صنعت کار، بیوروکریٹ، سیاستدان، زمیندار، جج اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی جو کہانیاں ہم آئے روز سنتے رہتے ہیں وہ حقیقت میں پیش آنے والے واقعات کا عشر عشیر بھی نہیں۔

ہم یہاں ان واقعات کی بات نہیں کرتے جو ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں اب معمول بن چکے ہیں نہ ان رسومات کی بات کرتے ہیں جو سوارا، ونی، وٹہ سٹہ اور کاروکاری کے نام پر جنسی اور جسمانی تشدد کا ایک قبائلی معاشرے کو جواز فراہم کرتی ہیں ہم یہاں منظم جنسی استحصال کی حالیہ برسوں میں منظر عام پر آنے والے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طرف ان میں تسلسل سے اضافہ نظر آتا ہے اور دوسری طرف ان واقعات اور وراداتوں میں بھی نت نئے طریقے استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔

سن سو ہزار کے آغاز پر لاہور شہر میں جاوید اقبال نام کے ایک آدمی نے جنگ اخبار کے دفتر میں ایک دل دہلانے والی کہانی سنائی کہ ان نے 6 سے 16 سال کی عمر کے 100 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے تیزاب میں جلا دیا ہے۔ اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا اور اس کے پیچھے کیا نفسیاتی، معاشی اور سماجی عوامل کارفرما تھے اس پر ابھی تک ایک دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس کی گرفتاری اور سزا سنانے کے بعد پر اسرار حالات میں اس کی خود کشی کی خبر کے ساتھ ہی وہ کہانی بھی ختم ہوگئی اور زندگی پھر سے معمول کے مطابق رواں دواں تو ہوئی مگر ایسے واقعات نہ رک سکے۔

قصور کی 400 فلموں اور 280 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ کل ہی کی بات ہے۔ واویلا ہوا، شور مچ گیا اور لعنت ملامت ہوئی، شاید عدالت سے ملزمان اور مجرمان کو سزا بھی ہو مگر معاشرے نے اس سے عبرت حاصل نہیں کیا۔ سوات میں2016 ءمیں اس سے بڑےسکینڈل میں سینکڑوں بچوں کی تصویریں اور فلمیں سامنے آگئیں مگر یہ کیس بھی سرکاری فائلوں میں دب گیا۔ ان وارداتوں میں بھی فلمیں اور تصاویر بناکر بچوں کو بلیک میل کرنے کی باتیں سنی گئیں لیکن مزید تحقیق کے نتائج سے ابھی تک ہم بے خبر ہیں۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ بچے کم عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جن میں سے پانچ لاکھ بچوں کو رہنے اور سونے کے لئے چھت میسر نہیں اور پانچ ہزار بچے صرف پشاور شہر میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو ہمیں ہر وقت سڑکوں بازاروں مزدوری کرتے اور اور گلیوں میں کچرا اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں جانور بھی انسانی جنسی ہوس سے محفوظ نہیں اور جہاں با اثر اور باوثوق لوگوں کے بچے جنسی درندگی کا شکار ہوجاتے ہیں وہاں ایسے غریب اور نادار بچے جنسی درندگی سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جنسیات پر بات کرنے اور اس کے متعلق آگاہی کو معیوب قرار دے کر ان حقائق سے انکار کیا جاتا ہے کہ بچوں نے جوان ہوتے ہوتے یہ سب کچھ کہیں سے تو سیکھنا ہے۔ وہ سکول جہاں اس موضوع پر بات کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان پر فحاشی اور عریانت کو فروغ دینے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بے گھر اور بے یار و مددگار بچوں کی کفالت اور سکونت کے لئے کوئی بندوبست نہیں جہاں ان کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ ہمارے مذہبی اکابرین کو بے راہ روی صرف اداکاروں، فنکاروں، کھلاڑیوں اور فیشن ایبل لوگوں میں ہی نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں کو ایسے واقعات نظر ہی نہیں آتے ہیں یا ایسے واقعات کو ایک معمول سمجھ کر ان بات نہیں کرتے ہیں۔ غریب ایسے واقعات کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھتا ہے تو امیر لوگ اپنی عزت کی خاطر ایسی باتیں سامنے نہیں لاتے جس کی وجہ سے بچوں کا جنسی استحصال ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشے میں نہ صرف پروان چڑھ رہا ہے بلکہ پھیل رہا ہے۔

ہر بار سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے بجائے بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے اس ناسور کو حقیقت سمجھ کر اس پر بات کی جائے اور اس کے مکمل تدارک کے بارے میں سوچا جائے۔ اگر زینب کا قاتل پکڑا بھی گیا اور اس کو سخت سے سخت سزا بھی ہوئی تو کیا پھر کوئی زینب ایسی درندگی کا شکار نہیں ہوگی، کیا ایسے واقعات پھر نہیں ہوں گے؟ جب تک ریاست اور شہری سب یکسو ہوکر اس حقیقت پر بات نہیں کریں گے معاشرے کا یہ ناسور رستا رہے گا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan