۔۔۔۔۔ اگر میرا بس چلے تو


پچھلے دو روز کے انتہائی تکلیف دہ واقعات نے ملک کے سارے طبقوں کو یک زبان ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت کے وزراء اور کابینہ کے اجلاس، سیاسی لیڈر، سماجی کارکنان، بلھے شاہ کے ماننے والے اور اسے اباحتی ماننے والے، مسجدوں اور موم بتیوں والے، ترجمان حکومت پنجاب اور ترجمان پاک فوج، کراچی سے پشاور، کشمیر سے کوئٹہ، بابا رحمتا سے بی بی رحمتے، باجی رحمتی سے بے بی ریحام، سکولوں کے بچوں سے مدرسوں کے طلباء، حجام کے سیلون سے ریل کے سیلون تک یک زبان ہو کر اس   گھناؤنے جرم کی مذمت اور مجرموں کو “کیفر کردار” تک پہنچانے میں یکساں بے چین۔ وزیر اعلٰی بے خواب اور صبح ساڑھے چار بجے مظلوموں کے گھر روانہ۔

آپ شاید حیران ہوں کہ میں نے ان بدقسمت والدین کا ذکر تک اس میں نہیں کیا جن کی جانیں اس عذاب سے گذر رہی ہیں جس کے تصور کا بھی دعوٰی نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً ان کی حالت قابل رحم اور مظلومیت کا ایسا استعارہ بنی ہوئی ہے کہ اس کے بیان کا یارا نہیں

جب بھی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے (اور یاد رہے کہ پچھلے چار دن میں یہ چوتھا سانحہ ہے جو رپورٹ ہوا ہے) تو بائیس کروڑ دانشمندان قوم اتنی ہی وجوہات اور تین گنا حل پیش کرنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں، جن میں اچھے، کمزور، ناقابل عمل، برے اور بدنیتی پر مبنی تک تجاویز اور مشورے چوبیس گھنٹے کان پھاڑنے کے عمل میں مصروف عمل۔۔آخر اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ یہ وہ آخری سوال ہے جو اونٹ کی کمر توڑ رہا ہے

میں اپنی حالت کا کیا بتاؤں جس کی اپنی پوتی کا نام زینب ہے۔

ہم سب کچھ سن چکے اور سب کچھ کہہ چکے، اب دونوں ہاتھ جوڑ کر وہ بات کہنے لگا ہوں جسے کہنے کے لئے میرا حلق میرا ساتھ نہیں دے رہا اور وہ یہ ہے کہ اگر میرا بس چلے تو میں ایسے والدین پر فرد جرم عائد کر دوں جو اپنے بچے بلاؤں اور بد روحوں کے حوالے کر کے خود ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ غضب خدا کا یہ اندھے بہرے گونگے اور خبط الحواس مخلوق ہیں جو آئے دن ایسی خبریں سنتے دیکھتے ہیں سر جھٹک کر بھول جاتے ہیں۔ میری حیرت اور غصہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خصوصاً یہ لوگ پسے ہوئے طبقے (جسے انگریزی میں “ڈاؤن ٹروڈن” کہتے ہیں) سے متعلق نظر نہیں آتے، جن کی اولین ضرورت بھوک اور دھوپ سے بچاؤ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتی، بچے اور ان کی حفاظت اور تربیت ان کے لیے دور کی کوڑی ہوتی ہے

آج ہی محترمہ نورالہدی شاہ نے بچوں کے لئے ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ کاش ایسی قادرالکلامی مجھے عطا ہوتی تو میں ایسا ہدایت نامہ ان نادان، بھولے (یعنی بےوقوف) اور “عقلوں پیدل” والدین کے لئے ان کے دروازوں پر چسپاں کرواتا۔۔

اے وہ خوش نصیبو جو اولاد کی نعمت سے متمتع ہوئے ہو خالق کا شکر کرو اور اس شکر کے اظہار کے لئے اپنے حواس بحال رکھو

اے پیارے والدین جب تک اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو جائے، اس کے سر پر کھڑے رہو۔

اے نادان والد بروقت گھر جا اور اپنے بچوں سے کھیل کود۔ بجائے کودک نادان کی طرح دوستوں میں گھرا “بھونڈ” کی طرح بھوں بھوں کرتا پھرے ہے

اے وہ عورت جو ماں کہلانے کی سزاوار ہوئی ہے، خدا تیرے گھٹنوں پر رحمت کرے۔ کپڑے دھوتے ہوئے اٹھ اور پانچ روپے کا نیل دوکان سے خود لے کر آ، اپنی بچی کو درندوں کی کھوہ میں مت دھکیل۔ اللہ تجھے ہمت اور عقل دے۔

بچوں والو۔۔۔ ایسے بہانے مت بناؤ کہ کیا ہم اولاد کو قیدی بنا دیں؟ آزادی زندگی سے مشروط ہے موت سے نہیں دراصل تم اپنی نام نہاد آزادی سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے پر اولاد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہو

اے نادان والدین اجل کا قزاق بھالا مارنے کو تیار کھڑا ہو اور تم آپس میں بچوں کے سامنے چخ چخ کئے جا رہے ہو، کس مٹی سے بنے ہو تم۔ شاید پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کئی پتھروں سے پانی پھوٹتا ہے مگر تمھارے مونہوں سے ہر وقت زہر ہی پھوٹتا ہے

اللہ تمہاری اور ہم سب کی حفاظت فرمائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).