پاکستان اور امریکی میڈیا میں جاری بحث


پاک امریکہ تعلقات ایک خطرناک موڑ لے چکے ہیں۔ وفاقی وزراء اور دفتر خارجہ کے اہلکاروں کے بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ وہ جوابی بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ امریکہ کی بے وفائیوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن کوئی کان دھرنے والا نہیں۔ پاکستان کا امیج اس طرح کا بن گیا یا بنا دیا گیا کہ عالمی سطح پر اس کی حمایت میں بات کرنے والے کم اور اس کی بھد اڑانے والے زیادہ ہیں۔ جس طرح پاکستان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بحث جاری ہے اسی طرح امریکہ کے علمی اداروں اور میڈیا میں بھی اس ایشو پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ امریکی صدر کا بیان محض کوئی رسمی کارروائی نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد پوری ریاستی مشینری اس پر عمل درآمد کے لیے متحرک ہوجاتی ہے۔ اس کالم میں کوشش کی گئی ہے کہ ان چیدہ چیدہ نکات کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے جو امریکہ کے تھینک ٹینکس اور میڈیا میں پاکستان کو لگام دینے کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔

چند دن قبل امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر نے امید ظاہر کی کہ پاکستان شمالی کوریا کی طرح دنیا میں ’’عالمی اچھوت ریاست‘‘ جسے انگریزی میں Pariah State کہتے ہیں ‘ بن کر رہنا پسند نہیں کرے گا۔ امریکی اہلکاروں کے بیانات اور میڈیا میں جاری بحث سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک ہمہ جہتی حکمت عملی پر کارفرما ہے ۔

اگرچہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے نقاد ان کی پاکستان بارے حکمت عملی پر بھی نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ صدر ٹرمپ اپنی پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کرنے والے نہیں۔ بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ پاکستان آج نائن الیون کے بعد کی سی صورت حال سے دوچار ہے۔ امریکہ نے اسے دھمکی تھی کہ اگر وہ دست تعاون دراز نہیں کرے گا تو اسے پتھر کے عہد میں دھکیل دیاجائے گا۔ امریکہ میں پاکستان کے خلاف تادیبی کاررائیوں کے کئی ایک آپشنز زیربحث ہیں جن میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کا معاشی ناطقہ بند کرنا بھی ایک اہم ہتھیار ہے۔ پاکستان کی معیشت کا انحصار عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر ہے لہٰذا امکان ہے کہ پاکستان قرض چکانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا اس طرح اس کا معاشی دیوالیہ نکل سکتا ہے۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ امریکہ کا معتبر ادارہ ہے۔ اس نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ فوری طور پر پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا اسٹیٹس ختم کردے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو فوری طور پر کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن وہ مغربی ممالک سے حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی حاصل نہیں کرپائے گا۔ اسی ادارے نے یہ تجویز بھی دی کہ امریکہ پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلالے اور نئے سفیر کا تقرر نہ کرے۔ بروکنگ ہی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کی مشکیں کسنے کی خاطر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے مدد لے جن کے پاکستان کی عسکری اور سیاسی لیڈرشپ کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ان ممالک میں لاکھوں پاکستانی بسلسلہ روزگار مقیم ہیں لہذا پاکستان ان کی خواہشات کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

سی آئی اے کے سابق سینئر اہلکار Bruce Riedel نے ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ اگر پاکستان امریکہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تو اسے دہشت گرد ملک قراردے دیا جائے ۔ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ایران کے ساتھ کیا گیا۔ اس کی نہ صرف معاشی امداد بند کر دی جائے بلکہ ایف 16 لڑاکا طیاروں کے لیے درکار آلات اور پرزوں کی فراہمی بھی مستقل طور پر روک دی جائے۔ علاوہ ازیں عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں اور امداد کو بھی بند کرایا جائے۔ یاد رہے کہ 1992میں جارج ڈبلیو بش نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے والے ہیں۔

بہت سارے امریکی دانشور بھارت کے افغانستان میں کردار میں اضافے کی صلاح بھی دیتے ہیں تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ اگرچہ بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ کا خدشہ زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود امریکی انتظامیہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ پہلی بار پاکستان نے بھارتی خفیہ ادارے را اور افغان این ڈی ایس کے اشتراک اور پاکستان میں مشترکہ دہشت گردی کی کارروائیوں پر غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ دی ۔

امریکہ کے ساتھ تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات کا کافی بڑا نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ 2016 کے اعداد وشمار کے مطابق 3.4 بلین ڈالر کی اشیا پاکستان سے امریکہ برآمد کی گئی تھیں۔ امریکی میڈیا سے یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کرکے حافظ محمد سعید ، طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے کسی بڑے لیڈر کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے کئی فرضی مشقیں بھی کی جا چکی ہیں۔

پاکستان کی حکومت اور عسکری لیڈرشپ سر جوڑ کر امریکہ کے ساتھ ابھرنے والے تنازع کو حل کرنے کی جستجو میں ہے۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا نقطہ نظر ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا کیونکہ وہ افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور ایک عالمی طاقت بھی ہے۔ دونوں ممالک کی عسکری لیڈر شپ بھی باہمی تعاون کا دروازہ مکمل طور پر بند کرنے کے حامی نہیں۔ افغانستان میں جاری جنگ کے کمانڈر جنرل وٹل کا پاکستان کی عسکری قیادت سے رابطہ قائم ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ رابطے تعلقات کو معمول پر لے آئیں گے لیکن ان رابطوں کا جاری رہنے پاکستان کے مفاد میں ہے۔

پاکستان میں چونکہ یہ عام الیکشن کا سال ہے لہٰذا حکمران جماعت ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کے لیے بھی امریکہ کے خلاف بیان بازی عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ بہت سی سیاسی جماعتیں حکومت کو مشورہ دے رہی ہیں کہ افغانستان میں موجود چودہ ہزار کے لگ بھگ امریکی اور اتحادی فوجیوں کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت منسوخ کر دی جائے۔ افغان حکومت کو سزا دینے کی خاطر اس کے ساتھ تجارتی روابط معطل کردیئے جائیں اس طرح وہ پاکستانی بندرگاہیں بھی استعمال نہیں کر سکے گا۔ کچھ لوگ تو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے جواب میں خالصتان تحریک کے لیے جوابی حمایت فراہم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر کرتے ہیں تاکہ حساب چکایا جا سکے۔

یہ سارے مشورے اپنی جگہ لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان ایسے اقدامات ضرور کرے جو اس کے افغانستان اورامریکہ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد دے سکیں۔ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان مہم جوئی شروع کرنے سے قاصر ہے لیکن انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی ازسر نو کوشش کی جا سکتی ہے۔ ترکی، ایران، چین اور روس کی مدد سے افغانستان میں وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لیے سرگرم کردار ادا کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر چین افغان حکومت اور طالبان سمیت تمام دھڑوں کے لیے طویل عرصہ سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood