ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں


انسان اورحیوان میں بہت مماثلتیں ہیں۔ مثلاً سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت، زندگی کی نشوونما کےلئے پانی اور خوراک کی طلب، دیکھنے کے لئے آنکھیں، سننے کے لئے کان، انسانوں کی طرح نظام انہضام چلنے کے لئے پاؤں وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطاءکرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔ اس عقل کے باوجود اگر انسان کا دل پتھر بن جائے اس کا ضمیر مردہ ہو جائے یا کسی نے اپنی انسانیت کا گلاگھونٹ رکھا ہے تو اس نے گویا انسان کا محض لبادہ اوڑھ رکھا ہے اندر سے وہ کیاہے؟ یہ اس کی فطرت ہی بتاسکتی ہے۔

حالیہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک شہر قصور میں ایسے ہی چند انسان نما درندوں نے ایک 7 سالہ ننھی پری زینب کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا۔ 7سالہ زینب کو 4 روز قبل گھر کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا اور زیادتی کے بعد گلا دباکر قتل کردیا گیا، چار روز کے بعد اس کی لاش گندگی کے ڈھیر سے برآمد ہوئی۔

وہ ایسی تتلی تھی جو ابھی اڑ بھی نہ پائی تھی۔ ایسی کلی جس کو بن کھلے مسل دیا گیا۔ اور یہ صرف ایک دو بچیوں کی داستان نہیں ہے۔ بلکہ گاؤں گاؤں اور محلے محلے کی کہانی ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں صرف ضلع قصور میں زیادتی کے بعد قتل کا بارہواں واقعہ ہے۔

بچوں سے زیادتی کے خلاف سرگرم ایک فلاحی تنظیم ’’ساحل‘‘ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ہر روز 11 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں زیادہ تر6 سے 15سال کے درمیان تھیں۔ رپورٹ کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کے رشتے داروں اور جاننے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اور درد سے بھری صورت حال ہے، آخر انسانیت کب جاگے گی، یہ انسان نما درندے کب تک بے گناہ اور معصوم بچوں کو اسی طرح سے درندگی کا نشانہ بناتے رہیں گے۔

اس 7 سالہ شہزادی کی تصاویر دیکھنے کے بعد روح کانپ جاتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھولنے کی عادت ہے۔ جس طرح کراچی کی چھ سالہ ننھی طوبیٰ کو بھول گئے جس کی گردن اور ہاتھ کی نسیں تک درندوں نے کاٹ ڈالی تھیں، فیصل آباد کا آٹھ سالہ مظلوم عمران جسے مدرسے میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد برہنہ حالت میں تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا گیا تھا، اسلام آباد میں ایک جج کے ہاں کام کرنے والی نو سالہ طیبہ جو اپنے ننھے وجود پر بے شمار زخم لِئے لائی گئی، قصور اسکینڈل جس میں معصوم بچوں کا ماضی، حال اور مستقبل داغ داغ کردیا گیا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات جنہیں ہم اپنی عادت کے مطابق بھلا دیتے ہیں اور انسان نما درندے دن بدن اپنا جال پھیلائے جاتے ہیں اور ہر روز کوئی زینب اور کوئی طیبہ ان کی درندگی کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔

لبنان کے عظیم فلسفی خلیل جبران لکھتے ہیں ”تہذیب جدید نے قدرے دانائی بخشی ہے لیکن مرد کی حرص و ہوس نے عورت کے دکھوں کو سوا کر دیا ہے۔ کل کی عورت ایک مسرور رفیقہ حیات تھی اور آج کی عورت ایک مظلوم داشتہ!اگر عورت کی زندگی کا ایک رخ نہایت روشن اور دوسرا اتنا ہی بھیانک ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ معاشرے میں درندہ صفت اور بھیڑیا نما مردوں کی اکثریت ہے“

یقیناً ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان بہت کم ہیں اور انسانیت بھی ڈھونڈے سے ملتی ہے۔ ہاں انسان نما درندوں کی اکثریت ہے اور وحشت و بربریت کا راج ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے میں موجود درندگی اور وحشت کے اس عفریت کے پاؤں میں زنجیر کون ڈالے گا۔

ہمیں معاشرے کی اخلاقی تربیت کواپنا مسئلہ بنانا ہوگا اور ایک ایسے معاشرے کے لیے ماحول سازی کرنی ہوگی جہاں بدکاری کی طرف لے جانے والے تمام عوامل پر پابندی ہو، شراب پر بھی پابندی ہو برہنگی پر بھی پابندی ہو، جہاں آزادنہ اختلاط پر پابندی ہو، فحش گوئی اور فحش بینی پر بھی پابندی ہو، فحاشی کے کاروبار اور فحاشی پر مبنی تصویروں اور اشتہاروں پر بھی پابندی ہو۔ اس ماحول سازی کے بعد ہی ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں اس برائی کا کوئی موقع ہی نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس کی سزا حسب حالات سو کوڑے یا رجم ہوتی ہے۔ جب تک ہم ایسے معاشرے کے لیے ماحول سازی نہیں کریں گے تب تک زینب جیسی بچیاں اغوا ہوتی رہیں گی اور انسان نما درندوں کا شکار بنتی رہیں گی، مائیں اسکول سے اپنے بچوں کے لوٹنے کا انتظار کرتی رہیں گی۔ اور انسانیت یوں ہی شرمسار ہوتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).